احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
بنابرآں قرآن مجید کی اصل عبارت بطور ذیل ہے: ’’ولو نشآء لجعلنا منکم ملآئکۃ فی الارض یخلفون۰ کما جعلناہ منہم یخلف فی السمآء‘‘ {اگر ہم چاہتے تو تم کو فرشتوں میں سے پیدا کر کے زمین کے اندر ٹھہراتے۔ جیسا کہ ہم نے اس کو ان فرشتوں سے پیدا کر کے آسمان میں ٹھہرایا ہے۔} جاننا چاہئے کہ جس طرح عیسیٰ علیہ السلام نفخ جبریل سے پیدا ہوکر مقیم آسمان بنا۔ اسی طرح فرشتگان انسانوں سے پیدا ہوکر مقیم زمین بن سکتے ہیں۔ کیونکہ جب خدا نے پہلا کام کر لیا ہے تو دوسرا کام بھی اس کے اختیار واقتدار میں شامل ہے اور مفہوم یہ رہا کہ جب فرشتوں کا انسانوں سے بالقوہ پیدا ہوکر زمین پر رہنا عند اﷲ ممکن ہے تو عیسیٰ کا جبریل کی پھونک سے بالفعل پیدا ہوکر آسمان پر رہنا بھی درست ہے۔ چنانچہ اس قسم کے حذفیات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر موجود ہیں۔ جن کوعلم البلاغۃ میں ایجاذ الحذف کانام دیا جاتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک لفظ یا جملہ کو حذف کر کے عبارت قرآن کو اختصار کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔ تاکہ عبارت میں طوالت نہ ہو۔ جیسا کہ آیت ذیل میں شرط موجود ہے اور جزائے شرط محذوف ہے۔ ’’ولو تریٰ اذوقفوا علی النار۰ لرأیت امراً فضیحاً‘‘ {اگر تو ان کو دیکھتا جب وہ آگ پر لائے گئے تو تو ایک ہولناک منظر کو دیکھتا۔} یعنی آیت ہذا کا آخری جملہ ’’لرأیت امراً فضیحاً‘‘ جو جزائے شرط بننے والا ہے۔ یہاں پر محذوف ہے اور پھر آیت ذیل کا آخری جملہ جو معطوف بننے والا ہے بمعہ حرف عطف کے محذوف ہے اور صرف معطوف علیہ موجود ہے۔ ’’لا یستوی من انفق من قبل الفتح وقاتل (ومن انفق من بعدہ وقاتل)‘‘ {جس نے فتح مکہ سے قبل خرچہ کر کے جہاد کیا اور جس نے فتح مکہ کے بعد خرچہ کر کے جہادکیا دونوں برابر نہیں ہیں۔} بنابرآں میں نے آیت زیر بحث کے اندر مشبہ بہ جملہ کو بمعہ حرف تشبیہ کے محذوف قرار دے کر سلسلہ آیات کو مربوط وبرمحل بنادیا ہے۔ جس سے قرآن مجید پر خلط مبحث کرنے کا الزام ختم ہو جاتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلقہ حالات کا سلسلہ ترتیب واربن جاتا ہے اور وہ زمین سے مرفوع ہوکر مکین آسمان قرار پانا ہے۔ چونکہ میری بالا توجیہہ کو کسی مفسر قرآن نے