احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
متنازعہ فیہ ضمیرکے مرجوع کو متعین کرتی ہے۔ گویا کہ سیاق وسباق دونوں تائید کرتے ہیں کہ اسی ضمیر کا مرجع صرف عیسیٰ علیہ السلام ہی بن سکتے ہیں۔ اگر بفرض محال بزعم مرزا آیت ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کی ضمیر کا مرجع آنحضرتa کو قرار دیا جاوے۔جب کہ آپ کا ذکر شریف اسی سارے رکوع میں نہیں ہے تو قرآن مجید پر خلط مبحث کا الزام عائد ہوتا ہے کہ اس نے حالات عیسیٰ کو بیان کرتے ہوئے درمیان میں ایک غیر متعلق فقرہ کو لاکر سامعین کے دماغوں کو مشوش اور پریشان کر دیا ہے۔ کیونکہ بیان ہونے والے سلسلۂ حالات کے ٹوٹنے سے سامعین پر برا اثر پڑتا ہے اور وہ فوراً اپنے متکلم پر خبطی ہونے کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔ بہرحال مرزاقادیانی کانظریہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ جس سے وہ خود خبطی اور سیطح الفہم قرار پاتا ہے۔ الجواب ثانیاً یہ کہ یہاں پر لفظ ’’الساعۃ‘‘ سے مراد روز قیامت ہے اور مطلب یہ ہے کہ بلاشبہ عیسیٰ علیہ السلام علم قیامت بمعنی نشان قیامت اور علامات قیامت ہے۔ پس تم لوگ اس روز قیامت پر شک نہ کرو جس سے قبل حضرت عیسیٰ بطور نشان قیامت کے نازل ہوگا۔ جاننا چاہئے کہ قرآن مجید کی اصطلاح میں لفظ ’’الساعۃ‘‘ سے مراد روز قیامت اور عذاب قیامت ہی ہے۔ جیسا کہ خود آیت متنازعہ ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کے تھوڑے فاصلہ کے بعد آیت ذیل: ’’وان الساعۃ اٰتیۃ لا ریب فیہا وان اﷲ یبعث من فی القبور‘‘ {یقینا اور بلاریب قیامت آنے والی ہے اور یقینا خداتعالیٰ قبروں سے مردوں کو نکالنے والا ہے۔} موجود ہے جس میں قیامت کا آنا اور قبروں سے مردوں کا نکلنا مذکور ہے۔ الجواب ثالثاً یہ ہے کہ آیت زیر بحث: ’’وانہ لعلم اللساعۃ‘‘ سے قبل بالاتصال آیت ذیل موجود ہے۔ ’’ولو نشاء لجعلنا منکم ملائکۃ فی الارض یخلفون‘‘ {اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتوں کو پیداکر کے زمین کے اندر ٹھہرا لیتے۔} جس میں ملائکتہ اﷲ کے ذکر کو بلا وجہ اور بلا مناسب حالات عیسیٰ کے درمیان لایا گیا ہے جو بظاہر غیر انسب اور بے ربط معلوم ہوتا ہے اور اس طرح قرآن حکیم نے خلط مبحث کا ارتکاب کر کے اپنی فصاحت وبلاغت کو داغدار کر دیا ہے۔ میری طرف سے اسی اعتراض کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ اسی آیت کا آخری حصہ جو مشبہ بہ کا مقام رکھتا ہے بطور ایجاز الحذف جو علم البلاغت کی ایک اہم صنعت ہے۔ محذوف ہے۔ جب کہ حذفیات قرآن اعجاز قرآن کا ایک عظیم حصہ ہیں۔