احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ان حالات کے پیش نظر مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ امت عیسیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں نہیں بگڑی۔ بلکہ اس کے جانے یا مرنے کے بعد بگڑی ہے، غلط ہے۔ کیونکہ آیت زیربحث کا کوئی لفظ بھی مرزائی نظریہ کی تائید وتصدیق کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ باقی یہاں پر ایک اعتراض ہوسکتا ہے کہ جب امت عیسیٰ خود حضرت عیسیٰ کی موجودگی میں بگڑی تھی اور حضرت عیسیٰ ان کا بگاڑ بچشم خود دیکھ چکے تھے تو پھر وہ بقول قرآن خداتعالیٰ کے سامنے اپنی عدم ذمہ داری کا اظہار کیوں کریں گے۔ جب کہ وہ اپنی امت کا بگاڑ وضلال بچشم خود دیکھ چکے تھے اور ان کو اپنی موجودگی میں باز رہنے کے لئے کہتے رہے۔ جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دو زمانے ہیں۔ ایک اپنی امت میں رہنے کا زمانہ ہے اور دوسرا زمانہ اپنی امت کو چھوڑ کر قیام آسمان کا زمانہ ہے۔ بنابرآں ان کی عدم ذمہ داری کا تعلق صرف قیام آسمان کے زمانے سے ہے۔ اپنی امت کے اندر رہنے کے زمانۂ سے نہیں۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام خداتعالیٰ کی جواب دہی پر کہیں گے کہ میں جب تک اپنی امت میں موجود رہا تو ان کے بگاڑ وفساد سے باخبر رہا اور ان کی اصلاح میں کوشاں رہا۔ لیکن جب میں ان کو چھوڑ کر آسمان پر آگیا تو ان کے حالات کا ذمہ دار نہیں کہ انہوں نے کیاکیا اور ان پر کیا گذری۔ اب صرف تو ہی اے اﷲ ان کے حالات سے باخبر اور باعلم ہے۔ کیونکہ تو علیم وخبیر ہے اور عالم الغیب والشہادت ہے اور میں عالم الغیب نہیں ہوں۔ اب زیربحث پوری آیت کی مختصر تشریح وتفسیر بطور ذیل ہے۔ الف… ’’ماقلت لہم الاما امرتنی بہ ان اعبدوا اﷲ ربی وربکم‘‘ {میں نے ان کو وہی کچھ کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ تم صرف خداتعالیٰ کی عبادت کرو۔} مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کو صرف توحید خالص کی تعلیم وتبلیغ کی اور تثلیث وغیرہ کا عقیدہ انہوں نے ازخود گھڑ لیا۔ ب… ’’وکنت علیہم شہیداً مادمت فیہم‘‘ {میں جب تک ان میں رہا ان کے خلاف نگران وشاہد رہا۔} مطلب یہ ہے کہ جب تک عیسیٰ علیہ السلام ان میں رہے ان کے کرتوت اور عقائد دیکھتے رہے اور ان کو باز رہنے کے لئے کہتے رہے۔ مگر وہ نہ مانے اور اپنی گمراہی پر بشدت قائم رہے اور بدستور حضرت عیسیٰ کو خدایا ابن خدا کہتے رہے۔