احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
’’ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار (النساء:۱۴۵)‘‘ {بلاشبہ منافقین آگ کے نچلے درجہ میں ہوں گے۔} یہاں پر حرف فی منافقین اور درک اسفل کے دور ہونے کو بتاتا ہے اور حرف من درک اسفل اور نار کے ایک ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ بنابرآں یقین سے کہنا پڑتا ہے کہ حدیث مذکور کے اندر حرف فی ابن مریم اور کم بمعنی محمدی مخاطبین کے باہم متغائر ہونے کو اظہار کرتا ہے اور حرف من امام اور کم بمعنی محمدی مخاطبین کے متجانس ہونے کو بتاتا ہے۔ نتیجہ یہ رہا کہ ابن مریم امت محمدیہ میں سے باہر کا آدمی ہوگا اور امام امت محمدیہ کا ایک جلیل القدر فرد ہوگا۔ لہٰذا مرزا واہل مرزا کا یہ نظریہ غلط اور باطل قرار پایا کہ بطور پیش گوئی کے ابن مریم اور امام، مرزاقادیانی کے دو القاب ہیں اور اسی کو حدیث ہذا میں ابن مریم اور امام کہاگیا ہے۔ حالانکہ توجیہہ بالا کے مطابق یہاں پر دو اشخاص کا ذکر ہے۔ میرے اسی سوال کے پہنچنے پر ابوالعطاء صاحب نے ایک گول مول جواب ضرور بھجوایا جس سے میں نے اندازہ کر لیا اورمیرے دل نے فتویٰ دے دیا کہ یہ شخص آئندہ کے لئے میرے کسی خط یا سوال کا جواب نہیں دے گا اور خاموش رہنے میں اپنی خیر وسلامتی خیال کرے گا۔ اس پر میں نے اپنے حلقۂ احباب واصحاب کے اندر اپنے اسی خیال واندازے کا بھی اظہار کر دیا۔ چنانچہ یہ شخص میرے جواب الجواب کے پہنچنے پر ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔ اس پر میں نے خیال کیا کہ وہ خط وکتابت کے مصارف ڈاک سے گھبرا گیا ہے اور جواب دینا بند کر دیا ہے۔ میں نے اس کو بیس لفافوں کی رقم اور ماہنامہ ’’الفرقان ربوہ‘‘ کے ختم نبوت نمبر کی قیمت بذریعہ منی آرڈر بھجوا دی اور اس نے منی آرڈر وصول کر لیا۔ لیکن اس نے خط وکتابت کو بدستور بند رکھا اور جواب دینے کے لئے آمادہ نہ ہوا۔ مگر میں نے اس کو سوالات بھجوانے کاسلسلہ جاری رکھا اور اس نے اپنی خاموشی کو سد سکندری بنائے رکھا۔ میں نے تنگ آکر اسے ایک رجسٹرڈ خط بھجوایا۔ لیکن اس نے بذریعہ انکار میرے خط کو ڈیڈ آفس میں بھجوا دیا اور وہ خط ڈبل اجرت ادا کرنے پر مجھے واپس ملا۔ اسی طرح میں نے اسے تیرہ سوالات بھجوائے اور سوال اوّل اس کے علاوہ تھا۔میرے ان سوالات نے اس پر کاری ضربات کا عمل کیا اور ان کی صداقت نے اس کے دل کو دبا لیا اور اس پر دل کا دورہ پڑا اور فوری طور پر ہلاک ہوگیا اور میری فراست اور میرے دل کا فتویٰ صحیح ثابت ہوا اور اس کو اس کی مکتوبہ ’’انشاء اﷲ‘‘ اور ’’وباﷲ التوفیق‘‘ ہلاکت سے نہ بچا سکی۔