احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
نظر نہیں رکھتے۔ حالانکہ اس کا یہی الزام باطل تھا اور فرار کر جانے کا ایک ناروا حیلہ تھا۔ بحالات بالا میں نے اس کو متعدد بار لکھا کہ آپ راہ گریز اختیار نہ کریں اور خط وکتابت کے رواں سلسلہ کو درمیان سے نہ کاٹیں۔ تاکہ مسئلہ توفی کسی نتیجہ خیز مرحلہ پر پہنچ سکے۔ مگر اس شخص نے مردگان کی سی خاموشی اپنالی اور اپنے کئے ہوئے تمام وعدوں سے منحرف ہوگیا۔ اس پر میں نے مجبور ہوکر بطریق حرف آخر کے اس کو درج ذیل اشعار لکھ کر بھجوا دئیے اور نتیجہ کی انتظار میں منتظر رہنے لگا۔ قلت: تو حقائق رامدہ نام شتام ہم شتامت رامگو قول سلام ۱… تو حقائق کو گالیوں کا نام نہ دے اور گالیوں کو صحیح بات مت کہہ۔ قول من راشتم گفتہ نہ مرو گو تو مردی قول حق از من شنو ۲… میری بات کو گالی کہہ کرمت چھوڑ۔ اگر تو جواں مرد ہے تو سچی بات مجھ سے سن۔ از من واز قول من یابی حیات گر روی ازمن روی اندر ممات ۳… تو مجھ سے اور میری بات سے زندگی پائے گا اور اگر تو مجھے چھوڑے گا تو موت کے اندر چلا جائے گا۔ قول من جویان حق راحق نمود ہر کہ از حق رفت شد قوم ثمود ۴… میری بات نے طالبان حق کو حق دکھادیا اور جو شخص حق سے منحرف ہوا وہ قوم ثمود بن گیا۔ قول من حق است قول حق بگیر ورنہ اندر کذب رو درکذب میر ۵… میری بات صحیح ہے اور صحیح بات کو لے لے۔ ورنہ جھوٹ کے اندر جا کر مر جا۔ ازمن مسکین نور دیں بگیر گرنگیری تا ابد مانی ضریر ۶… مجھ مسکین سے دین کی روشنی حاصل کر لے۔ اگر حاصل نہیں کرے گا تو ہمیشہ کے لئے بے بصر رہے گا۔ دامن مرزا ات جملہ تیرگی است شمس را تقلید بندہ خیرگی است ۷… تیرے مرزا کا دامن سیاہی سے پر ہے اور شمس کو غلام کی پیروی پر شرم آنی چاہئے۔ گر جلال دین خواہی از خدا خویش را از دین مرزا کن رہا ۸… اگر تو خداتعالیٰ سے دین کاجلال مانگتا ہے تو اپنے کو مرزائی دین سے آزاد بنالے۔ نزد ایں مرزا جلال دین کجاست کہ جلال دین از بندہ جداست ۹… اسی مرزا کے پاس جلال دین نہیں ہے۔ کیونکہ دین کا جلال ایک غلام سے الگ رہتا ہے۔