احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
تین بے تعلق علماء کے حوالے کر دیا جائے گا۔ جس تحریر کو وہ حلفاً فصیح وبلیغ کہہ دیں گے وہ فریق سچا، اور دوسرا جھوٹا ہوگا۔ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر دو فریق کی تحریرات کے اندر جس قدر غلطیاں نکلیں گی وہ سہو ونسیان پر محمول نہیں کی جائیں گی۔ بلکہ واقعی اس فریق کی نادانی اور جہالت پر محمول کی جائیں گی۔ مجھے آپ کے اس معیار صداقت پر بعض شکوک ہیں۔ جن کو میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔ ۱… کسی عربی عبارت کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ اس کے مقابلہ میں کوئی شخص اس انداز وفصاحت کی دوسری عبارت معارضہ کے طور پر نہیں لکھ سکتا۔ آج سے پہلے صرف قرآنی عبارت کا خاصہ تھا۔ بشر کا کلام اعجاز کے حد پر نہیں پہنچ سکتا۔ حتیٰ کہ افصح العرب حضرت سید الرسلa نے بھی اپنے کلام کی نسبت یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ معارضہ کے لئے فصحائے عرب کو بلایا۔ اگر مان لیا جائے کہ بجز کلام خدا کے دوسرے کلام بھی حد اعجاز تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر فرمائیے کہ الٰہی کلام اور بندہ کے کلام میں مابہ الامتیاز کیا رہا؟ ۲… ہزارہا عربی کے غیر مسلم اعلیٰ درجہ کے فاضل اور منشی گذرے ہیں اور ان کی تصانیف عربی میں موجود ہیں اور ان کے عربی قصائد اور نثر اعلیٰ درجہ کے فصیح اور بلیغ مانے گئے ہیں۔ کئی ایک غیر مسلم عالم قرآن کریم کے حافظ گزرے ہیں۔ بعض غیر مسلم شاعروں کے قصائد کے نمونے میں نے اپنے ایک مضمون میں دئیے ہیں۔ جو ۱۸۹۹ء کے رسالہ انجمن نعمانیہ میں، پھر اخبار ’’چودہویں صدی‘‘ کے کئی پرچوں میں چھپا ہے۔ ۳… مجھے سمجھ نہیں آئی کہ چالیس علماء کی کیا خصوصیت ہے۔ اگر یہ الہامی شرط ہے تو خیر ورنہ ایک عالم بھی آپ کے لئے کافی ہے اور یوں تو چالیس علماء بھی بالفرض آپ کے مقابلہ میں ہار جائیں تو دنیا کے علماء آپ کے دعویٰ کی تصدیق نہیں کریں گے۔ کیونکہ مجددیت، محدثیت اور رسالت کا معیار ’’عربی نویسی‘‘ کسی طرح بھی تسلیم نہیں ہوسکے گی۔ ۴… تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ اپنے اس اشتہارکے ضمیمہ کے ص۱۱ پر تحریر فرماتے ہیں کہ مقابلہ کے وقت پر جو عربی تفسیر لکھی جائیں گی۔ ان میں کوئی غلطی سہو ونسیان پر حمل نہیں کی جائے گی۔ مگر افسوس کہ آپ خود ان اشتہارات میں لفظ ’’محصنات‘‘ کو جو قرآن کریم میں مذکور ہونے کے علاوہ ایک معمولی اور مشہور لفظ ہے۔ دو دفعہ ’’محسنات‘‘ لکھتے ہیں۔ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۲۹،۳۳۶) ’س، ص‘ کی تمیز نہ ہونا، اتنے بڑے دعوے دار عربیت کے حق میں سخت ذلت کا نشان ہے۔ یہ لفظ اگر ایک دفعہ غلط لکھا ہوتا تو شاید سہو پر حمل کیا جاسکتا۔ مگر دو دفعہ غلط لکھا اور پھر یہ شرط ٹھہراتے ہیں کہ دوسروں کی غلطیوں کو سہو اور نسیان پر حمل نہیں کیا جائے گا۔