احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
اور قابل استعمال نہیں رہتے۔ چنانچہ جب بذریعہ قرآن مجید شراب کی حرمت آگئی تو مسلمانوں نے مٹکوں اوربوتلوں وغیرہ میں موجود شراب کو زمین پر گرادیا اور شراب کی بھٹیاں توڑ پھوڑ دیں اور شراب کے مٹکوں اور بوتلوں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔لیکن مرزاقادیانی نے جہاد سیفی کو حرام وقبیح کہہ کر جہاد سے متعلقہ الفاظ از قسم سیف بمعنی تلوار اور رمی (بمعنی تیر چلانا) کو اپنے قصیدہ کے اندر باربار استعمال کیا ہے اور فخریہ طور پر اپنے آپ کو سیاّف (تلوار چلانے والا) اور رامی (تیر پھینکنے والا) قرار دیا ہے۔ جیسا کہ بطور ذیل لکھا ہے۔ وجئناک یا صید الرّدٰی بہدیّۃٍ ونہدی الیک المرہفات ونعقر اور اے وبال کے شکار (ثناء اﷲ) ہم تیرے پاس ایک ہدیہ لے کر آئے ہیں اور ہم تیز تلواروں کا یعنی لاجواب قصیدہ کا تجھے ہدیہ دیتے ہیں۔ (اعجاز احمدی ص۸۴، خزائن ج۱۹ ص۱۹۷) علونا بسیف اﷲ خصماً ابا الوفا فنملی ثناء اﷲ شکراً ونسطر ہم نے اپنے دشمن ابوالوفاء کو خدا کی تلوار (قصیدہ) سے مار لیا۔ پس ہم خدا کی تعریف ازروئے شکر کے لکھتے ہیں۔ (اعجاز احمدی ص۸۷، خزائن ج۱۹ ص۲۰۰) الست تریٰ یرمی القنا من عندکم جہول ولا یدری العلوم واکفر کیا تو نہیں دیکھتا کہ وہ شخص تم پر نیزے چلا رہا ہے۔ جو تمہارے نزدیک بے علم اور کافر ہے۔ (اعجاز احمدی ص۸۵، خزائن ج۱۹ ص۱۹۸) جاننا چاہئے کہ حالات کے پیش نظر صاف طور پر عیاں ہے کہ جہاد سیفی کو حرام وقبیح کہنے والا مرزاقادیانی جہاد سے متعلقہ الفاظ کو قطعاً استعمال نہیں کر سکتا۔ ورنہ اس کو حرام خور یا مردار کھانے والا کہا جائے گا۔ حالانکہ اس کو چاہئے تھا کہ وہ حرام وممنوع چیز کے اپنانے سے کوسوں دور بھاگتا اور اپنے مفہوم ومطلب کو دیگر جائز الفاظ کی وساطت سے بیان کرتا۔ جب کہ اس کا بیان کردہ مقصد بطور ذیل اور بطریق احسن بیان ہوسکتا ہے تو اس نے حرام خوری اور مردار خوارگی کی راہ کیوں اختیار کی ہے اور عمداً دینی شرارت کے اندر اپنے کو کیوں ملوث کیا ہے۔ دیکھئے اس کا مطلب میرے نزدیک یوں ادا ہوسکتا ہے اور بہتر طور وطریقہ سے بیان ہوجاتا ہے کہ: وجئناک یا صید الردٰی بقصیدۃٍ بہا اﷲ یعلینی وایّاک یصغر ۲۹… اور اے وبال کے شکار ہم تیرے پاس ایک قصیدہ لائے ہیں۔ خداتعالیٰ مجھے اس کی مدد سے اونچا کرے گا اور تجھے ذلیل کرے گا۔