احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
رکن پور وغیرہ کے سکولوں میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۵۷ء میں مڈل سکول رکن پور سے ریٹائر ہوئے۔ بڑے کامیاب مدرس تھے۔ عربی ادب ان کا خاص ذوق تھا۔ دیوان حسان اور قصیدہ لامیہ خواجہ ابوطالب کی آپ نے شرح لکھی۔ مرزاقادیان کی کتاب اعجاز احمدی کے مقابلہ میں قصیدہ لکھا اور کمال کر دیا۔ آپ نے اپنی حیات میں فقیر راقم کو فون کیا کہ یہ قصیدہ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے ملاحظہ فرمالیا ہے۔ اسے شائع کرانا ہے۔ فقیرنے نامعلوم کیا جواب ہانکا ہوگا۔ اﷲ رب العزت معاف فرمائیں۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ وہ اس کی کتابت کرارہے ہیں۔ اتنے میں ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو آپ وصال فرماگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون! کسی جلسہ پر ان کے صاحبزادہ غالباً حافظ مشتاق الحسن سے ملاقات ہوئی تو ان سے عرض کیا کہ وہ مسودہ بھجوادیں تو شائع کر دیں گے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ وقت مقرر کریں کتنے عرصہ میں شائع کریں گے؟ فقیر نے عرض کیا کہ مشروط اشاعت تو ہمارے لئے مشکل امر ہے۔ آپ مسودہ دے دیں۔ محفوظ رہے گا۔اﷲتعالیٰ کو منظور ہے تو شائع بھی ہو جائے گا۔ اس پر وہ آمادہ نہ ہوئے۔ اس پر بہت عرصہ بیت گیا۔ پھر کہیں ملاقات ہوئی تو انہوں نے وہ مسودہ بھجوادیا۔ فقیر نے اس کا فوٹو کرایا۔ پھر عرصہ بعد دوبارہ انہوں نے اصل مسودہ طلب کیا۔ فقیر کا خیال تھا کہ وہ واپس کردیا ہے۔ وہ فرمائیں کہ نہیں۔ ایک دن ان کے تکرار واصرار پر تلاش شروع کی تو مسودات میں وہ مسودہ مل گیا۔ موصوف کو بھجوادیا۔ فوٹو کاپی تو موجود تھی۔ خیال یہی تھا کہ مرزاقادیانی کے قصیدہ کے جواب میں امت نے جو قصائد لکھے ہیں وہ تمام جمع ہو جائیں تو ان کو یکجا شائع کریں گے تاکہ مرزاقادیانی کے قصیدہ کے جوابات ایک جلد میں محفوظ ہو جائیں اور پھر یہ باب ایسے مکمل کر دیاجائے کہ قادیانیوں کی بولتی ہی نہیں تھوتھنی بھی بند کر دی جائے۔ تمام قصائد یکجا ہوگئے تھے۔ البتہ حضرت مولانا قاضی ظفرالدین صاحب کا ’’قصیدہ رائیہ بجواب قصیدہ مرزائیہ‘‘ کی اقساط مکمل نہ ہورہی تھیں۔ بلا مبالغہ اس پر بہت وقت لگا۔ حقتعالیٰ نے کرم فرمایا۔ وہ بھی مل گیا تو اب تمام قصائد کو ترتیب دی۔ مولانا میر محمد ربانی کا قصیدہ سن تصنیف کے حوالہ سے آخری قصیدہ ہے تو اس کتاب میں سب سے آخر پر اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ اس قصیدہ کو آپ ’’مسک الختام‘‘ قرار دے سکتے ہیں کہ یہ اس کا حق ہے۔