احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
رسالوں کی حقیقت اہل دانش سمجھ سکتے ہیں۔ ہوا یہ کہ علامہ ممدوح مرزاقادیانی کے سامنے انتقال کر گئے اور انہیں خوشیاں منانے کا موقع ملا۔ مگر جب ان کے بڑے مقابل فاتح قادیان مولانا ثناء اﷲ اور ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب ان کی آخر زندگی تک ان کی سرکوبی کرتے رہے اور اب تک ان کی روح کو مناسب ثواب پہنچاتے ہیں تو ان کی خوشیوں کی تلافی کافی طور سے ہو جاتی ہے اور جب فاتح قادیان مرزائیوں کو چیلنج دیتے ہیں تو ان کی روح تڑپ تڑپ کر رہ جاتی ہوگی۔ یہ خط تاریخ مناظرہ کے پہلے کا ہے۔ تاریخ مناظرہ لاہور ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء مقرر ہوئی تھی۔ مرزاقادیانی کے مشتہرہ مضمون میں قدرت خدا کا نمونہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے تکبر کے جوش میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ: ’’اگر میں پیر صاحب اور علماء کے مقابلہ پر لاہور نہ جاؤں تو میں ملعون جھوٹا ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۳۱) اور اس شدومد کے اشتہار واقرار کے بعد قدرت خدا سے صداقت کا ظہور نہایت آب وتاب سے اس طرح ہوا کہ باید وشاید اس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ پیر صاحب مرزاقادیانی کی تمام شرطیں منظور کرکے مناظرہ پر آمادہ ہو گئے اور ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء مناظرہ کی تاریخ مقرر ہوگئی اور پیر صاحب اپنے اقرار کے بموجب ۲۴؍اگست ۱۹۰۰ء کو مع دیگر علماء اور معززین اہل اسلام کے لاہور پہنچے اور ۲۹؍اگست ۱۹۰۰ء تک منتظر رہے۔ مگر مرزاقادیانی گھر سے باہر نہ نکلے۔ اس نواح کے مریدوں نے بہت زور لگایا۔ مگر وہ نہ آئے اور اپنے اس اشتہاری اقرار کی بھی پرواہ نہ کی جو لکھ چکے تھے کہ: ’’اگر مقابلہ پر لاہور نہ جاؤں تو میں جھوٹا اور ملعون ہوں۔‘‘ مہتممان جلسہ نے اس جلسہ کی روداد طبع کرا کے مشتہر کرائی تھی۔ اس میں ذیل کا مضمون لائق ملاحظہ ہے۔ ’’جملہ حاضرین جلسہ کے اتفاق رائے سے یہ قرار پایا کہ یہ شخص (یعنی مرزاغلام احمد قادیانی) مخاطب ہونے کی حیثیت نہیں رکھتا ہے اور شرمناک دروغگوئی سے اپنی دکانداری چلانا چاہتا ہے۔ اس لئے آئندہ کوئی اہل اسلام مرزاقادیانی یا اس کے حواریوں کی کسی تحریر کی پرواہ نہ کریں۔‘‘ یہ روئیداد مسلمانوں میں بہت شائع ہوئی ہے۔ جس سے مرزاقادیانی کے دعوؤں کی حالت اظہر من الشمس ہوگئی اور اپنے پختہ اقرار سے جھوٹے اور ملعون ٹھہرے۔ اس شرمناک ذلت مٹانے کے لئے مرزاقادیانی نے تفسیر اعجاز المسیح لکھی یا لکھوائی اور پیر صاحب سے جواب طلب کیا اور ’’منعہ مانع من السماء‘‘ کا الہام بھی سنادیا۔ کیونکہ روئیداد سے معلوم کرچکے تھے کہ پیر صاحب اور تمام علمائے حاضرین جلسہ مجمع عام میں ہزاروں معززین اسلام کے روبرو کہہ چکے ہیں کہ کوئی مسلمان مرزاقادیانی کو مخاطب نہ بنائے اور نہ ان کی کسی بات کا جواب دے اور ظاہر ہے کہ