احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
مجھے سخت تعجب اور افسوس ہے مرزاقادیانی کی سمجھ اور عقل پر یادیدۂ ودانستہ تمام لوگوں کے چشم بصیرت پر خاک ڈالنا چاہتے ہیں یا جھوٹ ان کا شیوہ ہوگیا ہے۔ میں دعویٰ کے ساتھ ان کی جماعت سے کہتا ہوں کہ دوچار بھی پیشین گوئیاں مرزاقادیانی کی بشرطیکہ وہ صاف ہوں اور صفائی سے اپنے وقت پر پوری بھی ہوئی ہوں۔ ثابت کریں۔ لیکن ناظرین اطمینان رکھیں کہ ہرگز وہ ایسا نہیں کر سکتے اور نہیں کریں گے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے قادیان کے بارہ میں پیشین گوئی کی کہ: ’’یہاں طاعون نہ ہوگا۔ اس لئے کہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰) اسی وقت سمجھدار حضرات نے کہا کہ اب ضرور قادیان میں پلیگ ہوگا۔ اس لئے کہ خدا جھوٹے کو رسوا کرتا ہے اور ایسا ہی ہوا جیسا کہ ’’الہامات مرزا‘‘ میں تفصیل سے مذکور ہے۔ تیسرا جھوٹ یہ ہے کہ وہ خود قادیان آتے۔ افسوس اس پر بھی مرزاقادیانی پورے نہ اترے۔ چنانچہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء کو مولوی ثناء اﷲ صاحب قادیان پہنچے اور مرزاقادیانی کو خط لکھا کہ میں آپ کا بلایا ہوا آیا ہوں۔ مجمع میں اپنی پیشین گوئیوں کو پیش کیجئے اور جو شبہات ان پر میں ظاہر کروں اسے دفع کیجئے۔ لیکن مرزاقادیانی میدان میں نہ آئے اور گھر ہی سے کاغذی گھوڑے دوڑاتے رہے۔ چنانچہ مولوی ثناء اﷲ صاحب نے سارے خطوط اپنے اور ان کے مع مرزاقادیانی کی زبان درازی اور خلق کو (الہامات مرزا ص۱۰۱) میں درج کیا ہے۔ جن میں مرزاقادیانی حیرت انگیز چالاکی سے اپنی پیشین گوئیوں کے پڑتال سے بھاگتے ہیں اور فرار پرفرار کو ترجیح دیتے ہیں اور غصہ سے گالی گلوچ سے ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ جیسا کہ حالی نے اپنے اشعار میں مرزاقادیانی کی اس حالت کا نقشہ دیاہے ؎ کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پہ لاتے کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے ستون چشم بددور ہیں آپ دین کے نمونہ ہیں خلق رسول امین کے پھر (اعجاز احمدی ص۶، خزائن ج۱۹ ص۱۱۲) میں لکھتے ہیں: ’’ایسا ہی بعض مخالفوں نے حدیبیہ کے سفر پر اعتراض کیا کہ یہ پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی اور سفر طول طویل دلالت کرتا تھا کہ آنحضرتa کی طبیعت کا رجحان اسی طرف تھا کہ ان کو کعبہ کے طواف کے لئے اجازت دی جائے گی۔ جیسا کہ پیش گوئی تھی اس پر بعض بدبخت مرتد ہوگئے اور حضرت عمرؓ چند روز ابتلاء میں رہے اور آخر اس لغزش کی معافی کے لئے کئی اعمال نیک بجالائے جیسا کہ ان کے قول سے ظاہر ہے۔‘‘