احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
سارے رسائل پر مولانا اصغر علی روحی کی تقریظات ہیں۔ مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ باغ لاہور کی جب افتتاحی تقریب منعقدہوئی تو مولانا احمد علی لاہوری نے مولانا اصغر علی روحی کو مدعوکیا۔ اس موقع پر مولانا اصغر علی روحی نے ’’بنائے قاسم العلوم‘‘ پر عربی میں ارتجالاً نظم بھی لکھ کر سنائی جو آپ کے عربی دیوان میں موجود ہے۔ مولانا اصغر علی روحی نے مولانا احمد علی لاہوری شیرانوالہ اور مولانا ابو الرشید عبدالعزیز خطیب مزنگ ان دو حضرات کے متعلق وصیت بھی کی تھی کہ ان دو میں سے کوئی میرا جنازہ پڑھائیں۔ چنانچہ مولانا احمد علی لاہوری نے جنازہ پر اپنے نمائندہ کے طور پر مولانا مہر محمد مدرس جامعہ فتحیہ اچھرہ والوں کو آگے کر دیا۔ ۳۰؍مئی ۱۹۵۴ء مطابق ۲۷؍رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ میں آپ کا لاہور میں وصال ہوا اور وصیت کے مطابق اپنے گاؤں کٹھالہ گجرات میں مدفون ہوئے۔ تراسی سال آپ نے عمر پائی۔ آپ کی وفات پر آپ کے شاگرد مولانا غلام دستگیر نامی نے آپ کی تاریخ وفات کہی۔ اس کے آخری مصرعہ سے ۱۹۵۴ء کا سال نکلتا ہے ؎ بمرگ عالم دیں مثل روحی فوت عالم شد ہمی گفتند چوں ناگاہ شد اصغر علی روحی بطاعات خدا و مصطفی عمرے بسر کردہ سوئے جنت بعز و جاہ شد اصغر علی روحی بسال انتقال آں یگانہ عالم و فاضل بگونامی جدا اے آہ شد اصغر علی روحی (۱۹۵۴ء) آپ کے فرزند ڈاکٹر محمد ضیاء الحق صوفی نے ان کی متعدد تاریخ ہائے وفات نکالی ہیں۔ لیکن ایک تاریخ جو رباعی کی شکل میں حسب ذیل ہے اس میں خوبی یہ ہے کہ سال ہجری کے ساتھ یوم وفات یعنی ۲۷؍رمضان کا ذکربھی موجود ہے؟ بیدار چوشد فتنہ و چوں امن بخفت روحی زجہاں زیر زمیں روئے فہفت تاریخ و فاتش چو زہاتف جستم سہ یوم چو ماندہ زمہ رمضان گفت (۱۳۷۳ھ) وفات کے وقت اتفاقاً آپ کے سب سے بڑے صاحبزادہ مولوی فضل حق مرحوم کراچی سے سرحد کی طرف دورہ کے لئے جارہے تھے کہ ایک رات کے لئے لاہور آئے اور والد صاحب کی خیریت معلوم کرنے کے لئے ٹھہرے۔ اسی روز جب آپ کو عصر کی نماز کے لئے جائے نماز پر بٹھایا گیا تو آپ دو رکعتیں ادا کرنے کے بعد جائے نماز پر ہی لیٹ گئے۔ ان کے صاحبزادہ نے عرض کیا کہ عصر کی چار رکعتیں پڑھنی چاہئے تھیں لیکن آپ نے دو رکعتیں پڑھ کر ہی سلام پھیر