احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
روحی نے اکتساب علم کیا۔ آپ یونیورسٹی میں اوّل آتے رہے تو آپ کو وظیفہ ملنا شروع ہوا۔ پھر ملازمت بھی مل گئی۔ ۱۸۹۲ء میں ہی اورینٹل کالج کے پروفیسر لگ گئے۔ آپ نے یتیمی کے دور میں بڑی مشقت سے تعلیم حاصل کی۔ جب ان واقعات کا اولاد کے سامنے تذکرہ کرتے تو آنسو بھر لاتے۔ تمام بھائیوں اور والدہ کی خدمت کی۔ سالانہ رخصت کا عرصہ ہمیشہ والدہ کے پاس کٹھالہ گاؤں میں گزارتے۔ آپ نے فارسی وعربی ادب میں اتنا رسوخ حاصل کر لیاکہ ان زبانوں میں شعر گوئی شروع کردی۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں مولانا محمد حسین آزاد، مولانا حالی، مولانا شبلی، نواب بہاول پور، علامہ اقبال، نواب محسن الملک سے رابطہ ہوا تو آپ کے علم کے جوہر کھلنے لگے اور شعر گوئی نے شہرت حاصل کرلی۔ جناب محمد ذوالفقار رانا نے پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۸۴ء میں پی۔ایچ۔ڈی کے لئے ’’مولانا اصغر علی الروحی احوال وآثار اور ان کے عربی دیوان شعر کی جمع وترتیب‘‘ کے عنوان پر چار جلدوں میں مقالہ لکھا۔ جس میں مولانا روحی کا عربی کلام سارا جمع ہو گیا۔ فارسی دیوان بھی مولانا روحی کے بیٹے ڈاکٹر محمدضیاء الحق صوفی صدر شعبہ عربی واسلامیات گورنمنٹ کالج لاہور کے پاس موجود تھا۔ مولانا روحی ۱۸۹۲ء سے پروفیسر لگے۔ ۱۹۳۱ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اسلامیہ کالج کی تعمیر میں چھ بلاک بنے تو ایک بلاک کو ’’روحی بلاک‘‘ کا نام دیا گیا۔ میاں امیرالدین، جناب حمید نظامی، چوہدری رحمت علی، خلیفہ شجاع الدین، مولانا غلام رسول مہر، شفاء الملک، حکیم محمد حسن قریشی، چوہدری محمد علی (سابق وزیراعظم پاکستان) ایسے سینکڑوں نامور شخصیات کو آپ کے شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے اکتوبر ۱۸۹۷ء میں مدرسہ حمیدیہ کے سربراہ بنے۔ انجمن نعمانیہ ۱۳۰۴ھ میں قائم ہوئی۔ اس میں بھی آپ نے خدمات سرانجام دیں۔ غرض سرکاری وغیرسرکاری تعلیمی اداروں میں آپ مختلف ممتاز عہدوں پر سرفراز رہ کر تعلیمی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ کی شہرت کے باعث ملک بھر کی دینی، تعلیمی، اصلاحی، قومی کانفرنسوں میں بھی آپ شریک ہوتے رہے۔ سر میاں محمد شفیع، سر فضل حسین، سر عبدالقادر، سر شہاب الدین، مولانا سید انورشاہ کشمیری، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر علامہ اقبال، مولانا احمد علی لاہوری ایسے حضرات سے آپ کا دوستانہ تھا اور یہ سبھی حضرات آپ کو دل وجان سے احترام دیتے تھے۔ حضرت لاہوریؒ کے بہت