ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
کسا لیکہ یزدان پرستی کنند بر آواز دو لاب مستی کنند ان حضرات کو ستار اور ڈھولک پر کیا وجد ہوتا اور اس میں کیا حظ ہوتا اور نہ ان کو حظ مقصود تھا ۔ میں نے صوفیہ کی ایک مجلس میں بسبیل گفتگو یہ کہ تھا کہ حضرت سلطان جی قدس سرہ نے سماع کے شرائط بیان کئے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ چار شرطیں ہیں سامع مسمع الہ سماع سامع ازاہل دل باشد ازاہل ہو اد شہوت نباشد مسمع مرد تمام باشد زن کو دک نباشد مسموع مضمون ہزل و فحش نباشد آلہ سماع چنگ و رباب درمیان نباشد ۔ اب فرمائیے ان قیود اور شرائط کے بعد کیا پھر بھی کوئی شبہ باقی رہتا ہے نہ مشائخ پر نہ علماء پر باقی ان حضرات سے یعنی مشائخ سے یا علماء سے کسی کو بغض و عداوت ہی ہو وہ مخاطب نہیں ۔ کیا محض خوش آوازی کو حرام کہا جا سکتا ہے ۔ مثلا اگر کوئی شخص قرآن شریف اچھی آواز سے پڑھے اس کو کون حرام کہے گا یا بوستان کو خوش الحافی سے یا اچھی آواز سے پرھے کون ممانعت کرے گا ان شرائط کے ساتھ اگر کسی پر کوئی کیفیت ہو جائے اس پر کیا ملامت خشک لوگ کیا جانیں جس کے قلب پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ وضو فرما رہے تھے ایک عورت کے رونے کی آواز آئی اس کا بچہ مر گیا تھا حضرت مولانا بیچین ہو گئے اور یہاں تک حالت طاری ہوئی کہ قریب تھا کہ زمین پر گر جاتے ۔ باقی ان حضرات کی قلبی کیفیات پر اعتراض کر دینا بہت آسان ہے ۔ مگر ضرورت سمجھنے کی ہے ۔ دوسرا واقعہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اور ہے ۔ آپ اجمیر تشریف فرما تھے ایک روز راستہ سے گزر رہے تھے ایک دوکان سے موسل سے وہاں کوٹنے کی آواز آئی اس آواز کو سن کر وجد طاری ہو گیا اور سڑک پر گر گئے یہ کیفیات اور حالات قلبی ہیں جو غیر اختیاری ہیں اس میں وہ حضرات معذور تھے ۔ میں نے ایک رسالہ لکھا ہے اس میں بزرگان طریق خصوصا چشتیہ کی نصرت کی ہے اور ان حضرات کا خود ان کے اقوال اور افعال سے متبع سنت اور متبع شریعت ہونا ثابت کیا ہے اور غلبہ حال کے وقت ان حضرات کا معذور ہونا بھی ثابت کیا ہے اس رسالہ کا نام ہے السنۃ الجلیۃ فی الچشتیہ العلیۃ میں نے غالبا اس میں غلبہ حال کی نظیر میں اپنے اوپر گزرا ہوا ایک واقعہ بھی لکھا ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ دوپہر کی گاڑی سے ایک مہمان آ گئے ان کی وجہ سے میں دوپہر کو آرام نہ کر سکا بعد نماز ظہر جب ڈاک کے جوابات لکھنے بیٹھا