ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
ایک صاحب کی غلطی پر حضرت والا نے مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ جب ایک بات بتلا دی گئی سمجھا دی گئی پھر اس کے خلاف کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ عرض کیا کہ حضرت نافہمی کی وجہ سے آپ کا کلام سمجھا نہیں تھا اس لئے حضرت کو تکلیف پہنچی ۔ فرمایا بد فہمی اس کا اصلی سبب ہے یا بے فکری عرض کیا کہ بد فہمی ۔ فرمایا چلو بس معاملہ ہی ختم ہوا ۔ بد فہمی تو غیر اختیاری چیز ہے اس کا کوئی علاج ہی نہیں ہو سکتا اگر بے فکری سبب ہوتی جو اختیاری ہے تو علاج بھی ہو سکتا تھا اور اصلاح کی امید بھی تھی اب کوئی امید نہیں کہیں اور جا کر تعلق پیدا کرو عرض کیا کہ کیا میری بے وقوفی سے زبان سے نکل گیا کہ اس کا سبب بد فہمی ہے بلکہ بے فکری ہی ہے اور اب آئندہ فکر سے کام لوں گا ۔ فرمایا کہ یہ دو مختلف باتیں ہوئیں ۔ پہلے تو بد فہمی کو سبب قرار دیا اب بے فکری سبب بتلایا ان میں سے کون سچ اور کون جھوٹ تم کو تو ایک طرف قرار ہی نہیں بد حواس کیوں بن رہے جو بات ہے دل میں ایک طرف ہو کر کہو ۔ عرض کیا کہ بے فکری ہی سبب ہے ۔ فرمایا کہ اب یہ بتلاؤ کہ جب تم کو بتلا دیا گیا تھا سمجھا دیا گیا تھا پھر خلاف کیوں کیا جس سے عقیدت اور محبت کا دعوی اس کی بات کو مغلوب کرنا پٹکنا گرانا یہ کون سی آدمیت اور انسانیت ہے ۔ عرض کیا کہ دل میں تو یہ بات نہ تھی فرمایا کہ کیا مجھے معلوم ہے کہ دل میں کیا تھا اور اگر بقول تمہارے دل میں نہیں تھا تو یہ نفاق ہے کہ ظاہر کچھ اور باطن کچھ ۔ دل میں کچھ زبان پر کچھ ۔ عرض کیا کہ غلطی ہوئی ۔ فرمایا کہ اس کو غلطی نہیں کہتے اس کو نفس کی شرارت کہتے ہیں نفس چاہتا یہ ہے کہ اپنی بات بڑی رہے ۔ عرض کیا کہ گستاخی ہوئی ۔ فرمایا کہ اب ٹھیک بات کہی واقعی گستاخی تو تم سے ہوئی ہے اب اس گستاخی کا تدارک بتلاؤ کس طرح ہو ۔ عرض کیا کہ معاف فرما دیں ۔ فرمایا معاف ہے مگر معاملہ پھر باقی ہے ۔ عرض کیا کہ جو حضرت تجویز فرمائیں فرمایا کہ تجویز تو میں نہیں کرتا ہاں خیر خواہی کی بناء پر مشورہ دیتا ہوں کہ تم کو مجھ سے مناسبت نہیں اس لئے اگر تم کسی دوسرے مصلح سے تعلق پیدا کر لو یہ اچھا ہے مجھ سے تم کو نفع نہ ہو گا اگر مصلح کا پتہ پوچھو گے بتلا دوں گا ۔ عرض کیا کہ بتلا دیجئے حضرت والا نے ایک پرچہ پر مصلح کا پتہ لکھ کر ان صاحب کو دے دیا اور فرمایا کہ اگر جی چاہے تو محض کبھی کبھی بذریعہ خط میری خیریت معلوم کر سکتے ہو مگر اس کے علاوہ اور کوئی مضمون اس میں نہ ہو اور جب ملنے کو جی چاہے تو پہلے بذریعہ خط اجازت لے لینا اور پرچہ اس کے ہمراہ رکھ دینا تاکہ معلوم ہو