ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
جاؤ حق تعالی کفیل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ لکھئے میں جاؤں گا حکیم صاحب نے پرچہ اور میرا تصدیقی پرچہ لے جا کر انہوں نے ان سوداگر کو دیا وہ ان سے اس کے متعلق سوالات کرنے لگے اتفاق سے بمبئی کے ایک سیٹھ ان سوداگر کے یہاں مہمان تھے وہ اپنی تجارتی کاروبار کی غرض سے آئے ہوئے تھے عقائد بھی ہمارے بزرگوں کے مسلک کے بالکل خلاف تھے وہ بھی ان کی باتوں کو سن رہا تھا اس نے دہلی کے سوداگر سے سوال کیا کہ کیا معاملہ ہے ان سوداگر نے کہا کہ یہ بے چارے قرضدار ہیں اور میرا نام لیا اس کی تصدیق ہے اور شرط یہ ہے کہ ایک شخص اڑھائی ہزار روپیہ دے تو لے سکتا ہوں ورنہ نہیں اس سیٹھ نے یہسن کر جیب میں ہاتھ ڈال کر ڈھائی ہزار کی ایک گڈی نوٹوں کی ان کے حوالے کی اور یہ کہا کہ میں جس وقت گھر سے چلا تھا یہ ڈھائی ہزار روپیہ اس نیت سے لے کر چلا تھا کہ کسی مصرف خیر میں صرف کر دوں گا تو اس سے بہتر مصرف خیر کیا ہو گا ایک مسلمان قرض دار پریشان ہے اور معتبر شخص کی تصدیق بھی موجود ہے جناب رقم لے کر سیدھے گھر پہنچے اور جن کا قرض تھا ان کا ادا کیا اور دوسرے یا تیسرے روز میرے پاس آئے میں نے جب آتے دیکھا تو میں سمجھا کہ بے چارے ناکامیاب آتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ڈھائی ہزار روپیہ کون اتنی جلدی دے سکتا ہے وہ آ کر جب میرے پاس بیٹھے تو چہرے پر بشاشت کے آثار پاتا تھا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ کامیاب آئے بالا خر میں نے سوال کیا کہ کیا ہوا آپ کے معاملہ میں کہا کہ اللہ کا شکر ہے اور آپ کی دعاء سے میں کامیاب ہو گیا اور قرضداروں کا دے کر فراغ حاصل کر کے حاضر ہوا ہوں پھر یہ سارا قصہ بیان کیا ۔ میں اس وقت حق تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ بڑے ہی کار ساز ہیں اس لئے کہ یہ وہ زمانہ تھا کہ پچاس روپیہ بھی ملنا مشکل ہے مگر ہمارے ہی نزدیک تو مشکل ہے ان کے نزدیک کیا مشکل ہے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ تو مگو مارا بدان شہ بار نیست با کر یماں کارہا دشوار نیست واقعی ان کی ذات پر بھروسہ کرنا ایسی ہی چیز ہے آج کل اسی سے لوگوں کی غفلت ہے میں کانپور میں تھا مخالفین نےبڑے بڑے نظرانے دیئے میں نے قبول کئے مخالف سے ہدیہ قبول کرنے میں میرا معمول ہے کہ چونکہ اس میں کسی دھوکے کا شبہ نہیں ہوتا اس لئے ان سے شرائط کی ضرورت نہیں سمجھتا البتہ دوستوں سے شرائط ہوتے ہیں کیونکہ ان میں احتمال دھوکے