ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
جا کر دوست کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے ۔ اب دوست صاحب کی خوب اچھی طرح مرمت ہوئی ۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت تھی کہا کہ میں نے شیخ سعدی علیہ رحمتہ کے فرمانے پر عمل کیا وہ فرما گئے ہیں ۔ دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست در پریشان حالی ودر ماندگی یہی حالت ان لوگوں کی تفسیر دانی کی ہے ۔ ایک ڈپٹی کلکٹر یہاں پر آئے تھے جو جدید تعلیم کا کافی اثر لئے ہوئے تھے اور اس وقت تو اس منحوس کا قریب قریب سب ہی پر اثر ہے ۔ کہنے لگے کہ میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ۔ میں سمجھ گیا کہ کوئی اسی قسم کا سوال کریں گے جس خیال کے ہیں اس لئے کہ یہ بھی آج کل مرض عام ہے خصوصا ان جدید تعلیم یافتوں میں کہ نصوص میں عقلی شبہات نکالا کرتے ہیں ۔ ایک حکایت اس پر عجیب و غریب بیچ میں یاد آ گئی ۔ ایک سرحدی ایک اسٹیشن پر اترا اور ایک کشمش کا بورا جو وزن میں دو من کا ہو گا بغل میں تھا ۔ بابو کو اپنا ٹکٹ دیا ۔ بابو نے کہا کہ اس بورے کا ٹکٹ مراد بلٹی تھی ۔ ولایتی نے کہا کہ اس کا ٹکٹ بھی یہی ہے ۔ بابو نے کہا کہ پندرہ سیر سے زائد کا قانون نہیں (اس وقت یہی قانون تھا ) اور یہ دو من سے کم نہیں اس ولایتی نے کہا کہ یہ قانون ہندوستانی کےلئے ہے وہ اتنا ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے ۔ ہمارا یہی پندرہ سیر ہے ۔ دیکھو ہم بغل میں دبائے کھڑا ہے ۔ یہ اس ولایتی نے قانون کی تفسیر اور شرح بیان کی کہ پندرہ سیر سے مراد خاص وزن نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ مسافر جتنا آسانی سے اٹھا سکے ۔ ہندوستانی اتنا ہی اٹھا سکتا ہے اس لئے قانون کا عنوان پندرہ سیر مقرر کر دیا گیا ۔ تو کیا اس کو قانون کی تفسیر اور شرح کہا جا سکتا ہے ۔ اور کہا یہ تفسیر ایک قانون داں کے سامنے قابل قبول ہے ۔ اسی طرح غیر اہل فن کی تفسیر قرآن شریف کے اہل فن کے سامنے ایسی ہے جیسے اس سرحدی کی تفسیر قانون کی ۔ اب کیا قانون داں اس کو سمجھائے ۔ اس کو تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ تو احمق ہے تو کیا جانے قانون کیا چیز ہے ۔ غرض ان ڈپٹی صاحب نے مجھ سے کہا کہ سود کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ۔ میں نے کہا کہ میرا کیا خیال ہوتا ۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں فلسفی نہیں ہوں ۔ مذہبی شخص ہوں ۔ قرآن و حدیث کا حکم ظاہر کر دینا میرا کام ہے ۔ قرآن و حدیث سے جواب دوں گا ۔ میرے اتنا کہہ دینے سے ہی ان کے سوالات کا بہت بڑا ذخیرہ تو ختم ہو گیا ۔ اکثر ایسے مدعی اصول موضوعہ ہی سے اللہ کا شکر ہے کہ پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ حکم