حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ترجمہ:اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا آپ تو (بے فائدہ کام کرنے سے) پاک ہیں ۔ آیت کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ مناظرِ قدرت سے متاثر ہو کر اللہ کی حمد و ثناء کرنے والے اپنے اللہ کو کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں یاد کرتے رہتے ہیں اور وہ عقلمند ہیں ۔ حضور سیدکائنات علیہ الصلوات والتسلیمات ان آیات کے مصداق اوّل و ذی شعور انسان ہیں آپﷺ کا نامِ نامی اسم گرامی ’’احمد ‘‘ہے۔ آپﷺ سے زیادہ کسی نے بھی اپنی جوانی میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء و تسبیح و مناجات نہیں کی۔(عیون الاثر: ۲/۳۸۲) اہل مکہ میں دعائوں کی تاثیر سے کسی کو بھی انکار نہ تھاوہ بھی اللہ سے مانگتے تھے، غلطی یہ کرتے کہ اللہ کے ساتھ بتوں کو شریک کرتے تھے، (مدخل لفہم السیرۃ :۱/۲۷)مکہ اور اس کی پڑوسی بستیاں یہ دیکھ چکی تھیں کہ حضرت محمدﷺ جب بارش کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اللہ ان کی دستگیری فرماتے ہیں ، وہ جس چیز پہ ہاتھ رکھ دیں وہ متبرک ہوجاتی ہے۔(سبل الہدیٰ ۲/۱۴۷،شرح الزرقانی ۱/۳۵۶) ملتزم ، صفا، مروہ، منٰی ، مزدلفہ ، عرفات میں اور نمازوں کے بعد حضورﷺ دعائیں فرماتے تھے، جب حضورﷺ نے حکمتِ خداد اد کی روشنی میں حجر اسودکو دیوار کعبہ میں نصب کیا اور آپﷺ کی قوم نے الصَّادِق وَالا َمِیْن خطاب دیا۔اس واقعہ کے بعد آپﷺ کی تعظیم و توقیر میں اضافہ نظر آیا۔ وہ لوگ آپﷺ کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے لگے ، چنانچہ جب ان کے کاروان تجارت یمن اور شام کی طرف جانے لگتے تو وہ ایک بڑی دعوت کرتے ،صدقہ و خیرات کے لیے کھانے پکائے جاتے، جب سب کچھ تیار ہوجاتا او ر لوگ جمع ہوجاتے تو دعا کے لیے حضرت محمدﷺ کو بلایا جاتا، آپﷺ تشریف لاتے اور دعافرماتے اور لوگ آمین کہتے تھے۔(دلائل النبوّۃللبیہقی ؒ ۱/۸۵)ملاحظہ: اس باب کاایک حصہ (عبادت) مکمل ہوا، دوسرا حصہ(حضورﷺ کی قائدانہ صلاحیتیں ) حاضر ہے۔ اس حصے کو عبادت کے ساتھ اس لیے جوڑا گیاہے کہ عام کتابوں میں نبی محترمﷺ کی قبل از تبلیغ رسالت کی عابدانہ وزاہدانہ زندگی کاتذکرہ کیاگیاہے لیکن اس تذکرے میں حضورﷺ کی ان صفات کو نظر انداز کیاگیا،جن سے معلوم ہوکہ اللہ نے آپﷺ کو روزِ قیامت تک کے انسانوں کاقائد، رہبروراہنما بناکربھیجاتھا۔ان ہی کمالات کی وجہ سے اہلِ مکہ نے آپﷺ کو سیّدُالْقَوْم (قوم کاسردار) کالقب دیاتھا۔(الطبقات الکبریٰ:۳/۴۲)