حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
(السیرۃ الحلبیۃ ۲/۳۷۹) مصنف ابن ابی شیبہ ۱/۱۵۶) نبی علیہ السلام نے حضرت خالد بن سنان کا تذکرہ فرمایاجو متبعین عیسیٰ میں سے تھے اور پھر ان کے وضو اور دعائے خاص کا ذکر فرمایا۔ (وفاء الوفاء ۱/۱۲۴)حضور ﷺ جب حلیمہؓ کے پاس تھے تووضو کرتے تھے۔( تاریخ الخمیس :۱/۲۲۵) معلوم ہوا کہ وضو کا تصور آپﷺ سے پہلے نبیوں میں پایا جاتا تھا۔ اور یہ بات مسلم ہے اور اس کتاب میں ثابت کردی گئی ہے کہ ایک حکمتِ خاص کے ساتھ انبیائے سابقین کی ان سنتوں پر آپﷺ کو اللہ کی توفیق خاص کے ساتھچلایا جارہا تھا۔جنہوں نے اس اُمّت محمدیہﷺ میں دین کاحصہ بننا تھا۔ حضورﷺ ان سنن کی تبلیغ بھی کرتے اور عمل کے ساتھ یہ وضاحت بھی فرماتے تھے اس عمل کاکون سا حصہ امم سابقہ میں جاری تھا،صرف ایک مثال پراکتفا کیاجارہاہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ’’ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا اور پھر اس طرح وضو فرمایا کہ اس میں ہر عضو کو ایک ایک دفعہ دھویا (یعنی ایک دفعہ کلی کی ایک ہی دفعہ منہ پر پانی ڈالا اورایک ہی دفعہ ہاتھ دھوئے) اس کے بعد آپ نے فرمایا یہ تو وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول ہی نہیں فرماتا (یعنی کم سے کم ایک دفعہ ہر عضو کا دھونا فرض ہے) پھر اس کے بعد آپﷺ نے دوبارہ وضو فرمایا اور اس میں ہر عضو کو دو دو دفعہ دھویا اور فرمایا:یہ وہ وضو ہے جو تم سے پچھلی (بعض)امتیں کیا کرتی تھیں (یعنی وہ لوگ ہر عضو کو دو دو دفعہ دھویا کرتے تھے۔) اس کے بعد پھر آپﷺ نے وضو فرمایا اور اس میں ہر عضو کو تین تین دفعہ دھویا اور اس کے بعد فرمایا:یہ وضو میرا اور میرے سے پہلے نبیوں کا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کیلئے وضو تو پچھلی امتوں پر بھی ضروری تھا مگر ہر عضو کو دو دو دفعہ دھویا جاتا تھا جبکہ ان امتوں کے نبیوں پراور آنحضرتﷺ پر ہر عضو کوتین تین دفعہ دھونا مسنون قرار پایا، خلاصہ کلام یہ ہوا کہ امت کی خصوصیت (خود وضو نہیں ہے بلکہ) ہر عضو کو تین تین دفعہ دھونا ہے جیسا کہ پچھلے نبیوں کی وضو تھی۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کہ وضو میں دھوئے جانے والے اعضاء کے روزِ قیامت چمکنے میں یہ امت دوسری امتوں کے مقابلے میں خصوصیت رکھتی ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۳۱۱) اسی پرعمل کرتے ہوئے نبی اکرمﷺ بچپن اورجوانی میں باقاعدہ وضو کرتے تھے۔ (تاریخ الخمیس ۱/۲۲۵)