حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
یہ بھی شرک وبت پرستی، شراب اور زنا سے سخت متنفر تھے، اسی لیے قبولِ اسلام میں دیر نہ لگائی، آپﷺ کی خاموش عملی تبلیغ سے متاثر ہو کر حضرت مالک رضی اللہ عنہ بن التیہان انصاری، بتوں سے سخت مُتنفر تھے، توحید کے قائل اور بتوں سے ناامیدی پھیلاتے تھے اور یہ اعلان کرتے: اللہ ہی ہر نفع و نقصان کے مالک ہیں ۔ (الاعلام للذر کلی: ۵/۲۵۸) جب ہر طرف ظلمت و اندھیر کے سایے ہوں تو روشنی کی معمولی کرن بھی اس میں شگاف ڈالتی ہے اور اپنا احساس دلاتی ہے، حضور ﷺ کو تواللہ نے سِرَاجًا مّنِیْراً بنایا تھا آپﷺ کی روشنی کے اثرات کیوں نہ پڑتے، مکہ سے باہر حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے میں لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی صدائیں بلند رکھتے تھے ۔ شام اور فلسطین کے راستے پر ان کا قبیلہ آباد تھا، وہاں کے کچھ لوگوں کا مَکہّ میں آنا جانا تھا، کسی نے ان کو بتایا: اے ابوذر! جو کلمہ تم پڑھتے ہو، یہی کلمہ مکّہ میں ایک شخص پڑھتا ہے، قریشی ہے، مکہ کار ہنے والا۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے تحقیق احوال کے لیے پہلے اپنا بھائی انیس بھیجا، پھر حاضر خدمت ہو کرچوتھے نمبر پر قبول اسلام سے سرفرازہوئے تو نبی علیہ السلام کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک اٹھا، اس کی وجہ ایک تو ان کا اسلام لانا تھا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حجاج کرام ابو ذرز رضی اللہ عنہ کے قبیلے سے بڑے پریشان تھے یہ قبیلہ ان کو لوٹ لیتا تھا۔ آپﷺ کو خوشی ہوئی کہ ابراھیمی ملّت کے کچھ لوگ اس قبیلے میں بھی ہیں ۔ (سیرا علام النبلاء۔ ۳/۳۷۳، الطبقات الکبری: ۴/۲۲۲)۔ ان موحدین میں سے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب لوگ اعلانِ اسلام کے بعد مسلمان ہوئے، لیکن ان کے قلوب پر شمع محمدی ﷺ کا بڑا اثر تھا، جو آپﷺ نے قبل از اسلام صنم کدۂ حجازمیں جلا رکھی تھی، اس کی کرنیں سعید روحوں کے دلوں پر پڑتیں تھیں ۔ جن کی وجہ سے وہ صنم پرستی اور غیر فطری کاموں سے بچتے آرہے تھے۔ ان کی طبیعتیں توحید کی جانب مائل ہوچکی تھیں ، حضور ﷺ کی زندگی کے یہ وہ دن تھے جب آپﷺ کی عادات و خصائل کے طفیل ہدایت کی زمین ہموار ہو رہی تھی تاکہ جب توحید کا بیج ڈالا جائے تو فوراً کھیت میں رل مل جائے اور تھوڑے دنوں میں اس کے پودے مالی کو خوش کردیں ، اس سرزمین میں نہ گھاس اگتا اور نہ پھل ہوتے تھے، بالکل بنجر بے آب و گیاہ جسے مالک الملک نے اپنے کلام میں وَادِی غَیْرِ ذِی ذَرْعٍ (ابراہیم :۳۷)(بنجر زمین والی وادی) قرار دیا ہے ، یہاں جس طرح زمین پتھریلی تھی اس طرح لوگوں کے دل بھی سخت تھے، لیکن محمّدﷺ کے وجودِ مقدّس نے ان میں نرمی پیدا کردی تھی، جس کے اثرات پورے خطہ عرب میں محسوس کیے جا رہے تھے۔ انسانیت سے سچی محبت کا پھول کھل چکا تھا اس کی خوشبو آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔