حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
٭پندرہ سال کے قوی جوان ہوئے تو آپﷺ کے سامنے (۵۸۴ عیسوی)ایک بڑی لڑائی’’حرب فجّار‘‘ کے نام سے ہوئی، اس میں آپﷺ نے اپنی آنکھوں سے انسانی قتل کے الم ناک مناظر دیکھے( ابن ہشام ۱/۱۹۵)۔ ٭ سولہ سترہ سال کی عمر (۵۸۶ عیسوی)میں اس معاہدے میں آپ خود شریک ہوئے، جو انسانیت کو ظلم سے بچانے اور قیامِ امن کے لیے لکھا گیا تھا۔ یہ آپﷺ کے دل کی آواز تھی۔ (طَبَقَاتِ ابن سعد : ۱/۱۲۵) ٭ نبی اعلان نبوت کے بعد بھی آپﷺ اس معاہدہ کی تحسین فرمایا کرتے تھے۔ ٭ پچیس سال کی عمر میں آپ بطور تاجر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام تشریف لے گئے کامیاب تجارت، سب سے زیادہ نفع اور راستہ میں بعض معجزات کے ظہور نے آپﷺکو مسرور کر دیا، یہاں سے واپسی پر آپﷺ کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوگیا۔ (سیرۃ ابن ہشام: ۱/۱۹۹) ٭ شادی کے پندرہ سال بعد۶۱۰ عیسوی فروری میں ) نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا، اس وقت آپﷺ چالیس سال کے تھے، معروف ہوچکاتھا کہ آپﷺ مَردِ کامل، سچے، مَنْصِف، طَیِّب وطَاھِر، بااخلاق و باکردار، ہر دل عزیز اور شیریں زبان ہیں ، آپ بطور شوہر، باپ، عزیز دار، اچھے دوست اور لائق تحسین معاملات کی حامل شخصیّت ہیں ، اس شہرت کے بعد زمینی حقائق او ر آسمانی دلائل واضح طور پر سامنے آگئے تھے کہ آپﷺ ہی وہ نبی ہیں ، جن کی خبریں پوری دنیا کے مَعْبَد خانوں میں گونج رہی ہیں ، آپ ہی انسانیت کی ڈوبتی نائو کو سہارا دینے والے ہیں ، اسی کو قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا۔ وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہ‘ اٰتَیْنَاہُ حُکْمًاوَّ عِلْمًا۔ (القصص:۱۴) اور جب وہ پختہ عمر کو پہنچا تو ہم نے اسے اپنے حکم اور علم سے نوازا