حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ان حالات و واقعات کا جواثر قلب ِ محمّد ﷺ پر ہونا چاہیے تھا وہ کسی ذی شعور سے مخفی نہ ہونا چاہیے۔ ٭ ماں کی تدفین کے بعدداد عبد المطلب اور اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کے ہمراہ بوجھل قدموں اور حزن و ملال سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ آپﷺ کی مکہ واپسی ہوئی ،اس سانحہ نے نے آپﷺ کیطبیعت پر گہرے اثرات چھوڑے۔ ٭ عبد ُالمطّلب تو مصروف ترین سردارِ مکہ تھے ان کے پاس ایک بچے کے لیے وقت کہاں ہوتا؟ لیکن ایسا نہیں ہوا انہوں نے اپنے مرحوم بیٹے عبد اللہ کی اس نشانی کو کبھی اپنے سے جدا نہیں ہونے دیا، جس کے سر سے ماں کا سایہ بھی جاتا رہا تھا۔ ان کی نشست خانہ کعبہ کے سایے میں ہوتی تھی ان کے رعب و ادب اور عربوں کی روایات کے مطابق کسی بڑے یا بچے کو بھی یہ اجازت نہ تھی کہ سردارِ مکّہ و مُتَولیٰ کعبہ کے گدّے پر قدم رکھے، نبی علیہ السلام آتے اور دادکی مسندپربیٹھ جاتے ،حاضرین میں سے ان کے چچا روکتے تو عبد المطلب سیدنا محمّدﷺ کی پیٹھ اور سر پہ ہاتھ پھیر کر کہتے: اسے نہ روکو، میرا یہ بیٹا بڑی شان پائے گا۔ (سیرۃ ابن ہشام، الرّوضُ الاُنُف: ۱/۱۹۵) ٭ دادا جی کی توجہ بھی آپﷺ زیادہ دیر حاصل نہ کرسکے اور بہت جلد (۵۷۸ عیسوی)میں اس عہد کا خاتمہ بھی ہوگیا کہ صرف دو سال بعد وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے، اب روحِ محمّد کو ایک اور غم ملا، امّ اَیمن رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ دادا جی کے جنازے کے پیچھے مسلسل روتے جارہے تھے۔ (ابن ہشام ۱/۱۷۸، دلائل النبوہ للبیہقی ۱/۹۱۸۸) ٭ اب زندگی کا نیا دور آٹھ دس سال کی عمر شریف سے چچا ابو طالب کے گھر سے شروع ہوا۔ اسی دوران بارہ سال کی عمر (۵۸۲ عیسوی)میں بَحِیْرَ ارَاھِب سے ملاقات ہوئی، وہ بصریٰ کے قریب شام اور بلاد عرب کی حدود میں رہتا تھا، اس نے آپﷺ کو توراۃ و انجیل کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا تو ابو طالب کو کہا: اس لڑکے کو آگے نہ بھیجو، یہ آخری نبی ہے، یہود شام اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ ابو طالب نے دو معتبر شخصوں کے ساتھ آپﷺ کو مکہّ کی طرف روانہ فرما دیا۔ اس واقعہ نے حیاتِ محّمدی پر بہت بڑا اثر مرتب کیا۔ تجربات میں اضافہ ہوا اور آپﷺ کو امیدوں کے دروازے کھلتے ہوئے محسوس ہوئے اور روشن مستقبل کی نوید سنائی دی۔ راہبوں کے پاس لوگ علم کے حصول کے لیے جاتے تھے۔ سید دوعالمﷺ کی تعلیم میں کسی بھی انسان کو معلمی کا درجہ حاصل نہیں ، آپ کی تمام عمر کی راہنمائی من جانب اللہ تھی