حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
٭… اس کے علاوہ بارہ سال کی عمر میں شہر بصریٰ (شام)کے قریب بحیراء راہب نے آپﷺ کو بطور ِنبی پہچانا۔ (سیرۃ ابن ہشام :ج۱ ص ۱۸۲) ٭… اور جب اعلان نبوت میں بہت تھوڑا عرصہ باقی تھا ان دنوں میں حضرت ورقہ اور حضرت زید بن عمر وبن نوفل نے بیت المقدس وغیرہ کے علاقوں میں آپﷺ کا ذکر عام کیا۔ ٭… اور جب آپ پچیس سال کے ہوئے تو شام میں نسطورا راہب نے آپ کو یہ خوش خبری دی کہ آپ ہی اللہ کے آخری پیغمبر ہیں ۔(سیرۃ ابن ہشام :۱/۷۱۸) یعنی عمر کے تمام درجات میں یہودی آپﷺ کے نبی ہونے کی گواہیاں دیتے رہے۔ ٭… حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے سفر یمن میں ایک عیسائی عالم نے ملاقات کی اور حضرت محمدﷺ کی آمد کی اطلاع دی اور آپﷺ کی شان میں نعتیہ اشعار بھی سنائے جو حضرت ابوبکر صدیق کو زبانی یاد ہوگئے تھے۔ (اسد الغابہ: ۱/ ۲۰۸) جب آپﷺ جوان تھے ان دنوں میں دو بڑے مذہبی گروہ یعنی یہودی اور عیسائی بھی حضورﷺ کو ایسے پہچانتے تھے جیسے وہ اپنے بچوں کو شکل وشباہت عادات واخلاق، خَلقی وخُلقی صفات کے ساتھ جانتے اور پہچانتے تھے اور مکہ، بصری، شام بیت المقدس، یمن (یثرب) مدینہ میں رہنے یا تجارت کرنے والے اہل کتاب سے حضور کا لڑکپن، عہدِ شباب، کاروبار، اخلاق ومحاسن اور علامات نبوت پوشیدہ نہ تھے۔ان کی خبروں کی بنیاد پر’’ محمد ‘‘نام لوگوں میں متعارف تھا۔ (الاصابہ: ۶/ ۲۸) اسی لیے جب انہوں نے سنا کہ حضورﷺ نے دعوٰٰی نبوت فرمایا ہے تو مدینہ کے یہودی مشرکین مدینہ سے کہنے لگے: نبی آخر الزمان تشریف لائیں گے تو ہم ان کے ساتھ مل کر تم سے جہاد کریں گے۔(حاشیہ الشھاب علی البیضاوی:۲/۱۴۹) لیکن روایتی کج روی کے باعث حضورﷺ کی معیت سے محروم رہے۔سعید روحوں نے اعلان ہوتے ہی لبیک کہا اور ان میں سے بھی انتہائی خوش قسمت وہ تھے، جنہوں نے اعلانِ نبوت سے پہلے ہی آپ ﷺکو پہچان لیا کہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں ، جنہیں خاتم النّبیین ﷺکہا جائے گا۔