حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
٭… بحیرئہ ساویٰ کا پانی خشک ہوگیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی: ۱/ ۷۸) اس قسم کے بے شمار معجزات (ارہاصات)پکار پکار کر کہنے لگے تھے: محمد مصطفی، احمد مجتبیٰﷺ کی رسالت کا ظہور ہونے والا ہے۔وہ پیدا ہو چکے ہیں ، پہلے انہوں نے خود انسانوں والی زندگی کا عملی نمونہ پیش کرنا ہے اور پھر دنیا کو روشنی سے آگاہ کرنا ہے۔ ملاحظہ: معجزات پر کیونکہ مستقل کتابیں موجود ہیں اس لیے یہ بحث کتاب میں نہیں ہے۔ تاہم ان کے ظہور کے مقصد اصلی کو بیان کیاجاتا ہے جو حضور ﷺ کو اعلانِ نبوت سے پہلے دیے گئے )علامہ رشید رضاؒ لکھتے ہیں : اعلان نبوت سے پہلے کے خوارقِ عادت اور معجزات کو تعجب خیز نہیں قرار دینا چاہیے، اس لیے کہ ان کے راوی یا تو حضورﷺ کے معاصرین صحابہ کرام ہیں یا ان کو کبار مورخینؒ نے بیان کیا ہے اور جب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بچپن میں (ماں کی گود میں ) گفتگو کی، حضرت مریم علیہا السلام کو بے موسم پھل دیے گئے، تو ہمیں ان نبویﷺ واقعات پر کیوں شک ہوتا ہے جو طفولیت اور جوانی میں اس انداز سے صادر ہوئے کہ اس قسم کے کاموں کو اعلان نبوت کے بعد ہم معجزات شمار کرتے ہیں ۔ (سیدنا محمدﷺ: ج ۱/ ص۳۰ تا ۴۰) سچے خواب، قلبِ اقدس میں نورکی آمد: ہر بچہ، جوان اور ضعیف العمر انسان خواب دیکھتا ہے، اس کا دیکھا کبھی جھوٹا ہو جاتا ہے اور کبھی سچا، لیکن نبی اس شان سے سوتے ہیں کہ ان کے خواب بھی وحی الٰہی کا درجہ رکھتے ہیں ، (زاد المعاد: ۱/۷۷) ہمارے نبی علیہ السلام کی عمرِ مبارک جب چالیس سال کے قریب ہوئی اور ان کازمانہ نبوت جب قریب آپہنچا تو رویائے صادقہ وصالحہ کی ابتداء ہوئی یعنی حضورﷺ سچے خواب دیکھنے لگے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کا ظاہر و باطن صاف اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں بیداری میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے جو خبر ملے یا خواب کے ذریعے سوتے وقت کوئی خبر ملے، وہ سچی ہوتی ہے، ان خوابوں سے پہلے یا کچھ عرصہ بعد آپﷺ کے دل کو ایک نورانی نعمت سے بھر دیا گیا۔ تاریخ وسیر کی تمام کتابوں میں لکھا ہے کہ فرشتوں نے سید دو عالمﷺ کے سینہ مبارک سے قلبِ اطہر نکال کر اس میں نورانی مواد بھر دیا اور ایسا کئی بار ہوا تاہم دلائل النبوۃ لابی نعیم میں ہے کہ چالیس سال کی عمر میں جب نزول قرآن، بیانِ کلام اور دعوت ِدین کا دور قریب ایا تو ایک بار پھر آپﷺ کے قلب ِاطہر کو زمزم سے صاف کر دیا گیا اور اسے ایک خاص چیز سے بھر کر سی دیا گیا۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم: ۱/ ۲۲۱)