حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
مال اور اوقات کی قربانیاں دینی پڑیں ، تو دے ڈالیں اور ایمان کو خیر باد نہیں کہا۔ ان کی استقامت دلیل تھی کہ جس شخص پر یہ لوگ فدا ہیں وہ صرف اور صرف اللہ کا رستہ دکھانے کے لیے لوگوں کو دعوت دیتا ہے، اور اتنی زبردست قربانیاں جو دی جا رہی ہیں کہ کسی کو انگاروں پہ لٹا دیا جاتا ہے اور کسی کو پانی میں ڈبویا جاتا ہے تاکہ حضرت محمدﷺ کا دامن چھوڑ دیں اس کے باوجود وہ ایسے شخص کی بات پر قائم ہیں جو نہ ان کو مال دیتا ہے اور نہ کوئی عہدۂ حکومت ،اس کے باوجوداتنی شدید قربانیاں دے رہے ہیں ۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف اللہ کی محبت اور مرنے کے بعد والی زندگی کی کامرانی کے لیے ایمان لائے۔ یہ حکمت تھی ابتداء میں رشتہ داروں کے نہ ماننے اور غیر رشتہ داروں کے ماننے کی۔ سوال: یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص دعویٰ نبوت کر ے اور لوگ یہ سمجھیں کہ یہ بادشاہ بننا چاہتا ہے اور اپنے خاندان کو بادشاہی دلوانا چاہتا ہے؟ جواب:میرے اور آپ کے ذہن میں تو شاید یہ سوال پیدا نہ ہو، شاہانہ سوچ رکھنے والوں کے دل میں تو یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ جیسے: جب ہر قل شاہِ روم کو نبی اکرمﷺ نے خط لکھا کہ وہ مسلمان ہو جائے، تو بادشاہ نے مکہ کے ایک سردار ابو سفیان کو بلایا جو اتفاق سے دارالخلافہ میں آئے ہوئے تھے، جب وہ آگئے تو انہوں نے نبی علیہ السلام کے بارے میں مختلف سوالات کیے، ان میں سے دو یہ ہیں : ۱۔ اس شخص کا نسب کیسا ہے؟ ابو سفیان :وہ ہم میں اچھے نسب والے ہیں ۔ ۲۔ کیا ان کے آبائو اجداد میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ ابو سفیان نے کہا: نہیں ۔ اس جواب پر بادشاہ نے کہا: اگر ان کے آبائو اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ یہ اس طریق سے اپنے باپ دادا کا گیا ہوا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ (بخاری حدیث نمبر: ۷)ملاحظہ: حقوقِ انسانی کے اس باب میں یہاں تک جو کچھ لکھا گیا اس کاخلاصہ یہ ہے کہ صلہ رحمی، عزیزی داری اور رشتوں کے تقدس کے خوبصورت مناظر اعلانِ نبوت سے پہلے بھی اسی طرح حضرت محمدﷺ کی زندگی کا حصہ رہے جیسے ظہورِ اسلام کے بعد دیکھنے کو ملے۔