حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
جب نبی اکرم ﷺ تجارت کے ذریعے خود کفیل ہوگئے ، ان ایام میں قریش مالی تنگی کا شکار تھے ایسے حالات میں سید نا محمد کریمﷺ کا دل بھر آتا اور آپﷺ لوگوں کے کام آتے، حتی المقدور قدرتی آفات میں ان کی اعانت فرماتے تھے۔(بخاری حدیث نمبر ۳) اور قریش تو آپﷺ کے اپنے تھے اس لیے آپﷺ سے ان کی تنگ حالی دیکھی نہ گئی خصوصًا وہ اپنے چچا خواجہ ابوطالب کی تنگ دستی اور کثیر العیالی کے متعلق متفکر رہتے تھے۔ شادی سے پہلے بکریوں کی رکھوالی کی اجرت کے ذریعے آپﷺ نے ان کی مدد جاری رکھی اور شادی کے بعد یہ سبیل نکالیکہ آپﷺ کے چچا اور بے تکلف دوست حضرت عباس بن عبدالمطلب قریش کے خوشحال لوگوں میں سے تھے، مشورہ کیلئے حضرت محمدﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: سیدنا محمدﷺ : اے چچا !آپ کے بھائی ابوطالب کثیر العیال ہیں ، آپ کو معلوم ہے کہ لوگ کن مشکلات سے دو چار ہیں ؟ چلئے ان کابوجھ ہلکا کریں ، ان کے بچوں میں سے کچھ کی پرورش اپنے ذمہ لے لیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ :بہت اچھا! چنانچہ چلے جناب ابوطالب سے ملاقات کی اور دونوں نے مل کر ان سے کہا: ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ جب تک یہ تنگی اور سختی کا زمانہ ہے جس میں سب ہی گرفتار ہیں ، اس وقت تک ہم آپ کے بال بچوں کابوجھ ہلکا کریں ۔ جناب ابوطالب: بہت اچھا، عقیل ؓ کو تو میرے پاس چھوڑ دو ، باقی بچوں میں تمہیں اختیار ہے جسے چاہو لے جائو۔ حضرت محمدﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری لی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت سے ہی حضور سیدالکائناتﷺ کے دامن سے وابستہ ہوگئے، یہاں تک وہ وقت آیا کہ رسول رحمت ﷺ پر قرآن اترنا شروع ہوا۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کی تصدیق کی او ر اولین اہل ایمان میں شامل ہوگئے۔ ادھر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں پرورش پاتے رہے حتی کہ (وہ خود کفیل ہوئے اور انہیں ) مدد کی ضرورت نہ رہی۔(تاریخ الطبری: ۲/۳۱۳) قارئین!یک ایسے ماحول میں حضورﷺ نے صلہ رحمی ، انسانیت پروری اور خدمت ِ خلق کی مثالیں قائم فرمائیں جہاں رشتوں کا تقدس پامال ہورہا تھا۔ نزول قرآن سے پہلے یہ کو ن سی طاقت تھی جو آپﷺ کے قلب و جگر کو انسانوں کی ہمدردی کا درس دے رہی تھی اور نہ صرف کہ آپﷺ نے خود اس نیکی کو اپنایا بلکہ اپنے ساتھ اپنے چچا جناب عباس