حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اللہ نے آپﷺ کی عمر کے شب وروز کی قسم کھائی ہے، اس میں قبل از نبوت زندگی بھی شامل ہے۔ اس لئے اسے نظر انداز کرکے صرف اعلان نبوت کے بعد والے افعال و اقوال سے سبق لینے والا طالب علم سیرت کے کئی پہلوئوں کی برکات سے محروم رہے گا، نبی رحمت ﷺ کی مبارک زندگی کا ہر لمحہ سنہری او رروشنی کا مینار ہے۔ سیرت نگاروں کی مجلس میں آنے والا یہ نوآموزیہ بھی سمجھتاہے کہ حضور ﷺ کے جن اعمال کو سارے انسانوں کے لئے لائق اتباع قرار دیا گیا، ان میں اکثر کی ابتداء حضور ﷺ کے سن شعور سے پہلے(بچپن ہی سے) کردی گئی تھی، اظہار نبوت کے بعد ان صفات و شمائل میں ترقی ضرور ہوئی ہے، تبدیلی نہیں ۔ احکام میں معمولی ردو بدل خاص حکمتوں کے ساتھ کیا گیا ، نماز، روزہ، قربانی اور حج کا تصور تھا، ان کی فرضیت حدود و قیود آہستہ آہستہ نازل ہوئے، اسی طرح انسانی ہمدردی کیلیے اِنفاق فی سبیل اللہ، مظلوموں کی مدد، قیدیوں کی فلاح، مقروضوں کی امداد جیسی نیکیاں نبی آخر الزماں ﷺ نے شروع فرمادی تھیں ، الغرض اسلام کا پورا نمونہ حضورﷺ کے بچپن اور آپﷺکے اس اٹھائیں سالہ دور میں دیکھا جاسکتا ہے جو قریب البلوغ کی عمر ۱۲ سال سے چالیس سال تک بنتا ہے۔ او روہ ممنوعات یعنی جن سے اسلام کی آمد کے بعد روکا گیا، حضرت محمد ﷺ ان سے طبعا ً دور تھے۔ بت پرستی ، شراب، جوئے وغیرہ سے متنفر رہتے تھے۔ اس لئے قبل از نبوت آپﷺ کی زندگی بھی ایک معیار ہے، جس میں امت کے لیے اسباق موجود ہیں ، خصوصاً ان اہل اسلام کے لیے سیدنا محمد ﷺ کے ایام شباب میں بڑی دلچسپی کا سامان ہے، جو مخالف ماحول یا غیر مسلم ممالک میں دین کا کام جاری رکھنا چاہتے ہیں ، رسولِ رحمتﷺ کے اس وقت کے معاملات ، عبادات، ملکی و ملی خدمات میں مصروف زندگی، یتیموں ، بیوائوں اور مسافروں تک نفع رسانی کے انتظامات یہ خبر دیتے ہیں کہ اعلان ِنبوت سے پہلے اللہ نے حضرت محمدﷺ کی شکل میں کامل انسان کی تصویر لوگوں کو دکھا دی تھی۔ اہلِ مکہ اور اہلِ کتاب اور جزیرۃُ العرب کے دانشور سمجھ گئے تھے کہ آخری اور سب سے بڑے پیغمبر حضرت محمد ﷺ ہی ہوسکتے ہیں ، اس لئے اس وقت کے صلحاء آپﷺ کو متبرک نوجوان اور رہبروقائد اوربعض تونبی سمجھنے لگے تھے، ابھی آپ ﷺ نے تبدیلی کا اعلان کرنا تھا، اس سے پہلے اپنی ذات میں اسلام کے عملی نمونے دکھا دیے تھے ۔ آپﷺ کا کردار شفاف تھا اور کسی کو اعتراض کی گنجائش نہ تھی۔ اگر کوئی شخص آپﷺ کے اخلاق سے مطمئن نہ ہوتا تو لوگ آپﷺ کی اخلاقی کمزور ی کو اس وقت ضرور سامنے لاتے ۔ جب حضرت محمدﷺ نے ان کے صدیوں پہ محیط رسوم و رواج اور تہذیب پر ضرب لگائی اور اس کی جگہ ایک نیا نظام پیش کرنے سے پہلے سب کو جمع کرکے پوچھا:تم نے مجھے اپنے اندر کیسا پایا؟ جواباً بیک زبان سب نے کہا:ہم نے آپ ﷺ کو ہمیشہ سچا اور کھرا انسان پایا۔ ان کے اجتماعی اقرار کے بعد محمّد اَلصَّادِقُ وَالْاَمِیْن نے کلمۂ اسلام کی تعلیمات کا آغازی اعلان