حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضورﷺ نے غمزدہ باپ کی دھاڑس بندھائی اور پوچھا: تمہارا لخت جگر کون ہے؟ اس نے کہا: زید۔ حضورﷺ مسکرائے اور فرمایا : جو زید رضی اللہ عنہ پسند کرے وہی مجھے منظور ہے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو مجھے کوئی عذر نہیں ۔ میں کوئی فدیہ لیے بغیر اس کو تمہارے حوالے کر دوں گا اور اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو میں ایسا نہیں کہ اسے زبردستی اپنے سے جدا کر دوں ۔‘‘ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے والد او رچچا دونوں بولے: آپﷺ نے انصاف کی بات کی ہے۔ چنانچہ فیصلہ کے لیے زید رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا۔ انہوں نے ایک ہی نظر میں اپنے باپ، چچا اور بھائی کو پہچان لیا۔ لیکن حضورﷺ کے اجلال اور پاس ادب سے ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے، اورحضور کے قدموں میں آکر بیٹھ گئے،حضورﷺ نے پوچھا: زید! جانتے ہو، یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں ، یہ میرے والد ہیں ، یہ چچا اور یہ میرا بھائی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اٹھو اور ان کو سلام کرو! حضرت زید رضی اللہ عنہ حکم پاتے ہی اٹھے اور ان سب سے ملے۔ اس موقع پر ہجر و فراق کا مارا ہوا باپ اپنے کھوئے ہوئے لختِ جگر کو سینے سے چمٹا کر اس قدر رویا کہ ڈاڑھی اور کپڑے تر ہو گئے۔یہ ایسا رقت انگیز منظر تھا کہ دیکھنے والے بھی آنسوئوں پر قابو نہ رکھ سکے۔ جب جذبات ذرا سکون پذیر ہوئے تو حضورﷺ نے فرمایا: زید! یہ تمہارے باپ اور چچا تمہیں لینے آئے ہیں ۔ میری طرف سے تمہیں پورا اختیار ہے۔ اگر ان کے ساتھ جانا چاہو تو شوق سے جا سکتے ہو، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فوراً جواب دیا: میرے آقا! آپ کی ذاتِ گرامی پر میں کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ للہ مجھے اپنے قدموں سے جدا نہ کیجیے۔ آپ ہی میرے باپ ہیں ، آپ ہی میری ماں ہیں یہ سن کر حارثہ رضی اللہ عنہ بن شرحبیل ششدر رہ گئے۔ انہوں نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: اے بیٹے! تم باپ، چچا، بھائی، خاندان اور وطن پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو۔ زید رضی اللہ عنہ بولے: میں نے محمدﷺ میں جو پیار دیکھا ہے وہ کہیں اور نہیں ہے۔ میرے آقا مجھ پر اس قدر مہربان ہیں کہ حقیقی والدین بھی اپنی اولاد کے حق میں اتنے رحیم و شفیق نہیں ہوتے۔ اس لیے میں ان کی غلامی کو ہزار آزادیوں پر ترجیح دیتا ہوں ۔ (الطبقات الکبری: ۳/۳۰)