حصن حصین مترجم اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شک یہ (غفلت اور بے پرواہی) ایک گناہ ہے، جس کی سزا (قبولیتِ دعا سے) محرومی ہے اور یہ (ربیع کا قول) ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت رابعہ بصر یہ ؓ نے فرمایاہے کہ ہمارا تو استغفار خود بہت کچھ استغفار کا محتاج ہے (کیونکہ ہم زبان سے تو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کہتے ہیں اور دھیان ہمارا کہیں اور ہوتا ہے) لیکن جو شخص (زبان سے) اَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ کہتا ہے اور (دل سے) توبہ نہیں کرتا تو اس میں شک نہیں کہ یہ جھوٹ ہوگا1(اس لیے کہ واقعہ کے خلاف ہے)۔ باقی رہی توبہ اور مغفرت کی دعا تو اگر بے توجہی کے ساتھ بھی کرے گا، تب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دعا کی قبولیت کا وقت ہو اور قبول ہوجائے، اس لیے کہ (مثل مشہور ہے کہ) جو شخص درواز کھٹکھٹا تا رہتا ہے، کبھی نہ کبھی (دروازہ کھل ہی جاتا ہے اور) وہ اندر داخل ہو ہی جاتا ہے۔ اس حقیقت کی وضاحت رسول اللہﷺ کے اتنی کثرت کے ساتھ استغفار کرنے سے بھی ہوتی ہے کہ آپ ایک ایک مجلس میں سو سو مرتبہ استغفار فرمایا کرتے تھے۔ اس کے بر عکس رسول اللہﷺ نے اس شخص کے متعلق جس نے ایک مرتبہ یا تین مرتبہ (صدقِ دل اور توبۂ کامل کے ساتھ) اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ کہا آپ نے قطعی طور پر اس کی مغفرت کا حکم لگادیا، اگرچہ وہ میدانِ جہاد سے کیوں نہ بھا گا ہو۔ مصنف ؒ فرماتے ہیں! لو اب تو استغفار کے دونوں طریق کی حقیقت تمہارے سامنے بے نقاب کردی گئی اب جو طریق تمہیں اچھا معلوم ہو، اسے اپنے لے انتخاب کرلو۔ مصنف ؒ فرماتے ہیں کہ کتاب الزہد میں حضرت لقمان ؑ سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ تم اپنی زبان کو اَللّٰہُمَّ اغْفِْر لِیْ کا خوگر بنالو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ ایسی ساعتیں [گھڑیاں] بھی ہیں کہ ان میں وہ کسی بھی سائل (کے سوال) کو ردّ نہیں فرماتا (دل سے ما نگتا ہو یا زبان سے)۔باب چہارم :قرآنِ کریم اور اس کی سورتوں اور آیتوں کے پڑھنے کی فضیلت