حصن حصین مترجم اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲۔ (صدقِ دل سے معنی کا دھیان کر کے) یا تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ ان کلمات کے ساتھ استغفار پڑھا کرے: اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔ میں مغفرت چاہتا ہوں اس للہ سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ (ہمیشہ ہمیشہ) زندہ رہنے والا (آسمان وزمین کو) قائم رکھنے والا ہے اور اسی کے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ فائدہ: حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ان کلمات کے ساتھ (صد ق دل سے) مغفرت طلب کرے گا اس کی مغفرت کردی جائے گی، اگرچہ وہ میدان جہاد سے ہی بھا گا ہو۔3 دوسری روایت میں ہے اگرچہ اس کے گناہ سمندر کے جھا گوں کے مانند(بیشمار) ہوں اور ایک روایت میں تین مرتبہ ہے دوسری میں پانچ مرتبہ۔ ۳۔ ان الفاظ کے ساتھ بکثرت استغفار کیا کرے: رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ اے میرے پرودرگار! تو مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرمالے، بے شک تو ہی بہت بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ فائدہ ۱: ایک حدیث میں آیا ہے کہ صحابہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ کی زبان مبارک سے ان (مذکورہ بالا) کلمات کو ایک ایک مجلس میں سو سو مرتبہ شمار کیا کرتے تھے۔1 فائدہ ۲:حضرت ربیع بن خثیم ؓ نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔ نہ کہنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں یہ (کہنا) جھوٹ اور گناہ ہو جائے بلکہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَتُبْ عَلَیَّ کہنا چاہیے۔2 مصنف ؒ فرماتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس طریق پر استغفار (درحقیقت) جھوٹ (اور گناہ) ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے بعض علما سمجھ بیٹھے ہیں (بلکہ ربیع ؒ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ) یہ گناہ اس لیے کہ جب (کوئی شخص) غافل اور بے پر وا دل کے ساتھ مغفرت طلب کرے گا اور دل سے مغفرت طلب کرنے کی طرف متوجہ اور مضطرب نہ ہوگا تو بے