حصن حصین مترجم اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور پورے اہتمام کے ساتھ اِن کاموں کے کرنے کے وقت اِن کو پڑھنا چاہیے، تاکہ رسول اللہﷺ کے اتباع کی سعادت و کامرانی اور دنیا و آخرت کے ثمرات و برکات حاصل کرنا نصیب ہوں۔ ہم نے حصن حصین کا ایک لفظ بھی نہیں چھوڑا ہے، نہ ہی اس میں کوئی اضافہ یا ترمیم [تبدیلی] کی ہے، صرف صورت اور قدرے ترتیب بدلی ہے اور ذہنوں سے اس خیال کو بدلنے کے لیے کتاب کے نام میں بھی ذرا سا تصر۔ّف [تبدیلی] کیا ہے اور اس مجموعہ کا نام ’’حصن حصین کی دعائیں‘‘ رکھا ہے۔ وَمَا اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ، وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ، عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ۔ ۲۔ جو دعائیں اور اذکار قرآنِ عظیم میں مذکور ہیں، وہ تو اللہ جل جلالہ کا مقد۔ّس کلام ہیں ہی، لیکن جو دعائیں اور اذکار احادیث میں وارد ہیں وہ بظاہر تو رسول اللہﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے کلمات ہیں، لیکن درحقیقت وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ’’وحی‘‘ کے ذریعہ ہی آپ کی زبانِ مقد۔ّس سے ادا ہوئے ہیں، اس لیے کہ رسول اللہﷺ کی زبانِ مبارک کے متعلق قرآنِ کریم کی شہادت یہ ہے: {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی}1 ’’آپ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے وہ (جو بھی زبان سے کہتے ہیں وہ) وحی ہے جو اُن کے پاس بھیجی جاتی ہے۔‘‘ لہٰذا اللہ جل و علیٰ کے مقد۔ّس کلام میں اور رسول اللہﷺ کی زبانِ وحی ترجمان سے نکلی ہوئی دعائوں اور اذکار میں جو تاثیر اور برکت ہوسکتی ہے وہ کسی بھی دوسرے شخص کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات میں یا انہی کے ترجموں میں، خواہ وہ اردو میں ترجمہ ہو، خواہ فارسی یا کسی بھی دوسری زبان میں ہوبہو [ایک جیسا] ترجمہ ہو، اُس میں وہ اثر و برکت ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتی جو قرآنِ کریم کی آیتوں یا حدیثِ رسول اللہﷺ کی دعائوں اور اذکار میں ہے، اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ صحابۂ کرام ؓ رسول اللہﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کی حفاظت میں خصوصاً ادعیہ و اذکارِ ماثورہ کے روایت کرنے میں انتہائی احتیاط و اہتمام کرتے ہیں۔ اسی لیے ذرا ذرا سا لفظی فرق یا کمی بیشی کو بھی ظاہر کردیتے ہیں کہ یہ دعا اِن الفاظ کے ساتھ بھی رسول اللہﷺ سے منقول ہے اور ان الفاظ کے ساتھ بھی، یہی وجہ ہے کہ ایک ہی کام کے وقت کی متعدد دعائیں اور ذکر ذرا ذرا سے فرق کے ساتھ الگ الگ بیان کرتے ہیں، مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں وقت کی دعا ان الفاظ کے ساتھ بھی رسول اللہﷺ سے ثابت ہے اور ان الفاظ کے ساتھ بھی، پڑھنے والے کو اختیار ہے کہ چاہے اُن الفاظ کے ساتھ پڑھ لے، چاہے اِن الفاظ کے ساتھ یا کبھی یہ پڑھ لے کبھی وہ، مثلاً نماز کے اندر التحیات چار پانچ طریق پر مذکور ہے، اسی طرح ’’درود‘‘ بھی چھ سات طریق پر منقول ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی سی ’’التحیات‘‘ پڑھ لے اور کوئی سا ’’درود‘‘یا کبھی ایک پڑھ لے، کبھی دوسرا۔