احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
میرے پاس حدیثوں کا ذکر مت کرو،کیونکہ وہ عنکبوت کے گھر کی طرح توڑی جاسکتی ہے۔ (اعجاز احمدی ص۷۴، خزائن ج۱۹ ص۱۸۷) یہی دونوں اشعار اس کے منکر الاحادیث ہونے کو بصراحت بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کے نزدیک احادیث نبویہ کی قدروقیمت مکڑی کے جالا سے بیشتر اور بالاتر نہیں ہے اور پھر وہ احادیث سننے پر بھی آمادہ نظر نہیں آتا۔ کیونکہ احادیث الرسول اس کے نزدیک ردی کاغذ کی مانند چاک کر کے پھینک دی گئیں اور اب ان سے کسی قسم کا استدلال نہیں ہوسکتا۔ اس شخص نے اس پر بس نہیں کی بلکہ مولوی ثناء اﷲ کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ: ذکرت بمدٍ عند بحثک بالہویٰ احادیث والقراٰن تلغی وتہجر تو نے مقام مد میں بوقت بحث کہا تھا کہ ہمارے پاس احادیث ہیں اور تو قرآن کو لغو وباطل ٹھہراتا ہے۔ (اعجاز احمدی ص۵۵، خزائن ج۱۹ ص۱۶۶) اس شخص نے اس شعر میں بھی احادیث نبویہ سے اپنی حقارت ونفرت کا اظہار کیا ہے اور مولوی صاحب پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ احادیث کو پیش کر کے قرآن مجید کا منکر بنتا ہے۔ ان حالات سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی احادیث سے منحرف ہے یا کم ازکم احادیث نبویہ کو قابل اعتماد وقابل استدلال نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ مولوی عبداﷲ چکڑالوی کا نظریہ ہے۔ بنابرآں مولوی عبداﷲ چکڑالوی اور مرزاقادیانی دونوں ایک ہی تھیلی کی برآمدات ہیں اور انکار احادیث کے معاملہ میں ایک ہی ماں کے دو جڑواں بچے ہیں۔ یا مرزاقادیانی عبداﷲ چکڑالوی کا ظل وبروز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعدادی طور پر ’’مرزاقدنی/۴۱۲‘‘ اور عبداﷲ چکڑالوی/۴۱۲ وجود واحد بن جاتے ہیں۔ (مرزاغلام احمد قادیانی/۱۵۴۸)= ’’خوان باحادیث الرسول دجلاً/۱۵۴۸‘‘ وہ اپنی دجالیت سے احادیث رسول کا خائن ہے۔ (مرزاغلام احمد/۱۳۷۲)= ’’خالف بالاحادیث النبویۃ/۱۳۷۲‘‘ اس نے احادیث نبی کی مخالفت کی ہے۔ میں نے مذکورہ بالا تینوں اشعار کو بطور ذیل ترمیم کر دیا ہے: وقد عظم الاخبار کل عظامۃ فانا بہا فی کل بحثٍ نذاکر احادیث کو کامل عظمت دی گئی ہے۔ اسی بناء پر ہم ہر بحث کے اندر ان سے مذاکرہ کرتے ہیں۔ علمنا احادیث الرسول کحصنۃٍ ودینی بہا حقاً بحصنٍ مخفر