احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
رہا کافر کے نیچے زندگی میں مرا تو کفر اس پہ سائباں ہے ثناء اﷲ مسلمان تھا خدا کا ملا ملک مسلماں اس کو یاں ہے ملی کافر کو کافر کی زمیں ہے یہی خود فیصلہ از آسماں ہے رہا صادق مرا کاذب یہاں پر یہی اس کی زباں کا ہی بیاں ہے مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی کتاب ’’اعجاز احمدی‘‘ پانچ ایام میں لکھی ہے اور تین دنوں کے اندر مطبع ضیاء الاسلام سے چھپوا کر شائع کر دی ہے۔ حالانکہ اس شخص کا یہی دعویٰ سراسر باطل اور جھوٹ ہے۔ کیونکہ کتاب ہذا کے اندر مباحثہ مد کے متعلق صرف گنتی کے چند اشعار ہیں اور کچھ قدر اردو عبارت ہے اور باقی اشعار وعبارت میں یا تو اس نے میاں مٹھو بن کر اپنی مدح وثناء کی ہے یا غیر متعلق وغیر موجود علماء وفضلاء کو اپنی سب وشتم کا نشانہ بنایا ہے یا مسیح علیہ السلام کے بارے میں ناشائستہ اور غیر موزوں باتیں درج کی ہیں اور ضروری باتوں سے صرف نظر کر کے غیر ضروری امور پر اپنا بیشتر وقت ضائع کیا ہے۔ ان حالات میں اس پر لازم یہ تھا کہ وہ صرف دو دن کے مباحثہ میں زیر بحث آنے والے دلائل وبراہین کا ذکرکرتا تاکہ پتہ چل جاتا کہ بروئے دلائل میدان مناظرہ کس فریق کے ہاتھ رہا اور کون سا فریق اس میدان میں ہزیمت کا شکار ہوا۔ ایسا نہ کرنے سے دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔ میں نے ہمت کر کے بحمدہ تعالیٰ مرزائی کتاب کا جواب بنام ’’شہباز محمدی‘‘ ترتیب دیا ہے جو انشاء اﷲ تعالیٰ قابل قدر وقابل اعتماد تحریر ثابت ہوگا۔ میں نے مرزاقادیانی کے قصیدہ اعجازیہ کے بالمقابل بطور جواب کے ایک عربی قصیدہ لکھا ہے جو تقریباً (۶۰۰)چھ صد اشعار پر مشتمل ہے اور اس کی تعلیات کا دندان شکن اور مسکت جواب ہے۔ میرے عربی قصیدہ کے اندر چند اہم مضامین پر بحث کی گئی ہے اور ہر مضامین کو بدلائل ثابت کیا گیا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کا عربی قصیدہ اس کے پراگندہ خیالات کا مجموعہ ہے۔ کسی خاص خاص مضمون پر مستقل تنقید وتبصرہ پیش نہیں کیا۔ بلکہ قصیدہ کے اکثر اشعار یا خود ثنائی کا شکار ہیں یا سب وشتم اور گالی گلوچ سے ملوث ہیں۔ اب میں بحالات بالا اپنی کتاب کو خلیفہ آف ربوہ کے سامنے پیش کر کے خواہش رکھتا ہوں کہ اگر ان کا کوئی فاضل عربی ایک ماہ کے اندر میری کتاب کا جواب اردو عبارت کا اردو عبارت میں، اردو نظم کا اردو نظم میں اور عربی قصیدہ کا عربی قصیدہ میں پیش کر دے اور ایک ثالث کمیٹی اس جوابی کتاب کو صحیح قرار دے دے تو میں اس مصنف کو دس ہزار روپیہ نقد بطور انعام کے پیش کر دوں گا اور اس کی علمی قابلیت کا اقرار کر لوں گا اور اگر اس نے میرے اسی علمی مطالبہ کو پورا نہ کیا اور بفضلہ