احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
M رسالہ الہامات مرزا کی چھٹی پیش گوئی متعلقہ ’’نشان آسمانی میعادی سہ سالہ‘‘ یہ پیش گوئی ایک دعا کے طور پر بڑے دو ورقوں میں مرقوم ہے۔ جن کا اصل مطلب یہ ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’اے میرے مولا! قادر خدا اب مجھے راہ بتلا۔ (آمین)… اگر میں تیری جناب میں مستجاب الدعوات ہوں تو ایسا کر کہ جنوری ۱۹۰۰ء سے اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک میرے لئے کوئی اور نشان دکھلا اور اپنے بندے کے لئے گواہی دے جس کو زبانوں سے کچلا گیا ہے۔ دیکھ میں تیری جناب میں عاجزانہ ہاتھ اٹھاتا ہوں کہ تو ایسا ہی کر۔ اگر میں تیرے حضور میں سچا ہوں اور جیسا کہ خیال کیاگیا ہے کافر اور کاذب نہیں ہوں تو ان تین سال میں جو اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک ختم ہو جائیں گے کوئی ایسا نشان دکھلا کہ جو انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہو۔‘‘ (اشتہار مورخہ ۵؍نومبر ۱۸۹۹ء مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۷۵،۱۷۸) گویہ الفاظ دعائیہ ہیں۔ مگر مرزاقادیانی اپنے رسالہ (اعجاز احمدی ص۸۸، خزائن ج۹ ص۲۰۳) پر اس دعا کو پیش گوئی قرار دیتے ہیں۔ پھر ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اس کی نسبت یہ گمان کریں کہ یہ صرف دعا ہی دعا ہے۔ جس کی قبولیت قطعی نہیں۔ اس لئے کہ ایک تو مرزاقادیانی کی دعا ہے، کسی معمولی آدمی کی نہیں۔ مرزاقادیانی تو اپنی دعا کی بابت اسی اشتہار کے ص۴ پر فرماتے ہیں: ’’جب کہ تو نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں تیری ہر دعا قبول کروں گا۔‘‘ (اشتہار مورخہ ۵؍نومبر ۱۸۹۹ء مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۷۱) میں سچ کہتا ہوں کہ جب سے مجھے اشتہار مذکور ملا ہے آسمان کی طرف سے ہر روز تاکتا رہتا تھا کہ دیکھیں مرزاقادیانی کے مخالفوں کے فیصلہ کے لئے کیا نشان ظاہر ہوتا ہے؟ جس کے دیکھنے کے بعد لوگوں کو ان کی نسبت جو خیالات ہورہے ہیں، رفع دفع ہو جائیں۔ کیونکہ یہ نشان کوئی معمولی نشان نہ تھا۔ بلکہ ایک عظیم الشان نشان ہے۔ جس کو سلطان کہتے ہیں۔ جس کی بابت خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’سلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کو نہیں کہتے۔ بلکہ ایسی دلیل کو کہتے ہیں کہ جو اپنی قبولیت اور روشنی کی وجہ سے دلوں پر قبضہ کر لے۔‘‘ (۲۲؍اکتوبر ۱۸۹۹ء) پس جو تعریف مرزاقادیانی نے سلطان کی کی ہے وہی مرزاقادیانی کے اس مطلوبہ نشان کی ہے جس کے نہ ہونے پر آپ فیصلہ دیتے ہیں: ’’اگر تو (اے خدا) تین برس کے اندر جو