احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
اور ہم نے اولاد کی طرح اس کی وراثت پائی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا ثبوت پیش کیا جاوے۔ لہ خسف القمر المنیر وان لی غسا القمران المشرقان اتنکر اس کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا گرہن ہوا کیا تو انکار کر سکتا ہے؟ (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳) الجواب اوّلاً: یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے آنحضرتa کی متاع صداقت صرف خسوف قمر (چاند گرہن) بتائی ہے اور اپنی متاع صداقت چاند گرہن اور سورج گرہن دونوں کو بتایا ہے۔ بنابرآں یہ شخص آنحضرتa کا صحیح اور جائز وارث نہیں ہے۔ ورنہ اس کے پاس بھی صرف خسوف قمر ہوتا اور کسوف شمس نہ ہوتا۔ کیونکہ وارث کو اپنے مورث سے وہی جائیداد ملتی ہے جو اس کی متروکہ جائیداد ہوتی ہے۔ بنابرآں یہ شخص آنحضرتa کا وارث نہیں ہے بلکہ کسی اور شخص کا وارث ہے جس نے اس کو دونوں گرہن دئیے ہیں۔ ہاں! اگر اس کے پاس صرف چاند گرہن ہوتا تو اس کا وارث النبی ہونے کا دعویٰ درست رہتا۔ ثانیاً: یہ ہے کہ آنحضرتa کے عہد میں چاند گرہن اور سورج گرہن دونوں ہوئے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی ازراہ خیانت عہد نبوی کے سورج گرہن سے اس لئے انکار کرتا ہے کہ ذات نبوی پر اس کے تفّوق وتفضل میں کسی قسم کا رکاوٹ پیدا نہ ہونے پائے۔ چنانچہ طبرانی میں جہاں مہدی علیہ السلام کے لئے خسوف قمر اور کسوف شمس کا ذکر ہے۔ وہاں پر درج ذیل حدیث بھی موجود ہے: ’’عن عائشۃ ان رسول اﷲa کان یصلّی فی کسوف الشمس والقمر اربع رکعاتٍ واربع سجدات‘‘ {حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲa سورج گرہن اور چاند گرہن کے وقت میں چار رکعات اور چار سجدے پڑھا کرتے تھے۔} چونکہ رکعت کا معنی رکوع الصلوٰۃ اور رکعۃ الصلوٰۃ دونوں طرح سے ہوتا ہے۔ اس لئے حدیث میں چار رکعات سے مراد دو رکوع والی دو رکعات ہیں اور مطلب یہ ہے کہ آنحضرتa نے سورج گرہن اور چاند گرہن کے وقت میں دو رکوع والی دو رکعت نماز نفل پڑھی جس میں دو رکوع اور چار سجدے تھے۔ جیسا کہ ابن عمرؓ کی روایت میں صراحۃً مذکو رہے کہ آپa نے ان دونوں گرہنوں کے وقت میں باقی نمازوں کی طرح دو رکعت نماز پڑھی جس میں دو رکوع اور چار سجدے تھے اور یہی احناف کرام کا مسلک ہے۔ لیکن مرزاقادیانی سے ان خسفی نمازوں کا پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ میں نے مرزائی اشعار کو بطور ذیل تبدیل کر دیا ہے: