احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
خیر الماکرین‘‘ {یہود نے مسیح کو مارنے کی اور خداتعالیٰ نے اس کو بچانے کی تدبیر کی اور خداتعالیٰ بہترمدبر ہے۔} اسی آیت کی موجودگی میں اگر ہم فقرہ: ’’یٰعیسیٰ انی متوفیک‘‘ کا یہ مفہوم لیں کہ اے عیسیٰ! میں تجھے مارنے والا ہوں۔ تو خداتعالیٰ (نعوذ باﷲ) بجائے ’’خیرالماکرین‘‘ کے ’’شر الماکرین‘‘ ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ اس نے یہود کی موافقت میں عیسیٰ کو مارنے کا اظہارکر دیا۔ حالانکہ اس کو یہود کی مخالفت میں عیسیٰ کے بچانے کا اظہار کرنا تھا جو نہیں کیا اور پھر اگر ہم لفظ ’’انی متوفیک‘‘ کا معنی یہ کر دیں کہ میں تجھے مارنے والا ہوں تو یہی معنی جملہ ’’ومکراﷲ‘‘ کی مخالفت میں چلا جاتا ہے۔ کیونکہ پہلے یہ کہاگیا کہ خدتعالیٰ نے ’’خیر الماکرین‘‘ بن کر عیسیٰ کے بچانے کی تدبیر کر لی ہے اور پھر کہہ دیا کہ اے عیسیٰ میں ’’شر الماکرین‘‘ بن کر تجھے مارنے والا ہوں اور یہ ایک قسم کا تضاد ہے اور قرآن مجید ایسے تضادات سے پاک ہے۔ لہٰذا ماننا پڑتا ہے کہ یہاں لفظ ’’توفی‘‘ کا معنی بچانا ہے اور مارنا نہیں ہے اور سیاق میں فقرہ ذیل موجود ہے۔ ’’ومطہرک من الذین کفروا‘‘ {اور میں تجھے کافروں سے بچانے والا ہوں۔} جو صراحۃً حضرت عیسیٰ کی تطہیر جسمانی کا اظہار کرتا ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ: ’’طہرت زیداً من اعدائہ‘‘ {میں نے زید کو اس کے دشمنوں سے بچا لیا۔} بنابرآں میری رائے کے مطابق بطور تجنیب وتبعید کے آیت زیر نزاع کا یہ معنی ہے کہ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات وموت سے دور رکھ کر اپنی طرف اٹھاتا ہوں اور تیری تطہیرجسمانی کرتا ہوں۔ ہاں! یہاں پر ایک اعتراض باقی رہ جاتا ہے کہ بخاری شریف کے اندر بقول ابن عباسؓ لفظ ’’متوفیک‘‘ کا معنی بلفظ ’’ممیتک‘‘ موجود ہے اور جس کا معنی یہ ہے کہ اے عیسیٰ! میں تجے وفات وموت دینے والا ہوں۔ لہٰذا آیت زیر نزاع میں تجنیب وتبعید کا طریقہ جاری نہیں ہوسکتا۔ جواب یہ ہے کہ لفظ ’’ممیتک‘‘ باب افعال سے اسم فاعل ہے اور بعض اوقات باب افعال کے اندر ہمزہ سلب اور تبعید کے لئے آتا ہے۔ جیسے: ’’اشکیت المریض فصح‘‘ {میں نے مریض کی شکایت اور بیماری دور کر دی۔ پس وہ تندرست ہوگیا۔} اور پھر اسی ہمزۂ سلب کا استعمال قرآن مجید کے اندر بھی موجود ہے۔ جیسے: ’’وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین‘‘ {اور جن لوگوں میں روزہ رکھنے کی طاقت مسلوب ہے۔ ان پر ایک مسکین کا کھانا بطور ہرجانہ کے مقرر ہے۔}