احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
۱… اولاد (لڑکے اور لڑکی میں فرق نہیں) اٹھارہ حصے ۲… شوہر یا بیوی ساڑھے چھ حصے ۳… باپ ساڑھے پانچ حصے ۴… ماں ساڑھے چار حصے ۵… بھائی ساڑھے تین حصے ۶… بہن اڑھائی حصے ۷… معلم ڈیڑھ حصہ میزان ۴۲ حصے آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ بہاء اﷲ اور بہائی مذہب کی مذکورہ بالا تقسیم وراثت سراسر باطل ہے اور اس کا موجد وبانی بالکل بطّال شخص ہے۔ کیونکہ اسی تقسیم وراثت میں بہت سے یک جدی ورثاء (دادا، اور چچا) کو محروم الارث اور غیر جدی شخص (معلم) کو وارث قرار دیا گیا ہے اور پھر ایک جگہ پر مذکرو مونث کو برابر گردانا گیا ہے۔ جیسے بیٹا اور بیٹی میں سے ہر ایک کو ۱۸حصے دئیے گئے ہیں اور جیسے شوہر اور بیوی میں سے ہر ایک کو ساڑھے چھ حصے ملتے ہیں اور دوسری جگہ پر مذکر ومؤنث میں تفریق اور کمی بیشی اختیار کی گئی ہے۔ جیسے بھائی کو ساڑھے تین اور بہن کو اڑھائی حصے ملتے ہیں اور باپ کو ساڑھے پانچ حصے اور ماں کو ساڑھے چار حصے دئیے گئے ہیں۔ میں نے جب ان حالات وارثت کے پیش نظر لفظ ’’باطل‘‘ اور لفظ ’’بطّال‘‘ کے اعداد حروف کی طرف توجہ کی تو دونوں کے اعداد پورے بیالیس (۴۲) برآمد ہوئے جس پر مجھے یقین ہوگیا کہ بہاء اﷲ کی مذکورہ بالا تقسیم وراثت (۴۲) حصے باطل ہے اور اس کا بانی وموجد بہاء اﷲ ایرانی بطّال شخص ہے۔ کیونکہ: ’’کل انائٍ یترشح بما فیہ‘‘ {ہر برتن سے وہی کچھ ٹپکتا ہے جو اس میں ہوتا ہے۔} بنابرآں بطّال شخص (بہاء اﷲ) نے وراثت کے بیالیس (۴۲) حصص ایجاد کر لئے جو اعداداً باطل (۴۲) ہوکر سامنے آتے ہیں۔ میں نے یہی تفصیلی بات اپنی طرف سے نہیں کہی۔ بلکہ قرآن عزیز بھی میرے اعدادی استدلال کی تائید میں فرماتا ہے: ’’جآء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا‘‘ {حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بلاشبہ باطل ایک مٹنے والی چیز ہے۔} آیت ہذا میں حق وباطل کا تقابل قائم کر کے بتایا گیا ہے کہ حق بمعنی وراثت کا اسلامی