احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
صحابہ کرام آپ کے رفقائے سفر تھے۔ جب قریش مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر اس محمدی قافلہ کو روک دیا تو حاضرین قافلہ پر بالضرور رنج وغم کا اثر ہوا۔لیکن آپa نے اہل قافلہ یعنی اصحاب سفر کو اطلاع دی کہ گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے ابھی ابھی اطلاعی ہدایات آنے والی ہیں۔ ہم سب اہل قافلہ کو ان ہدایات کا انتظار کرنا لازمی ہے۔ تاکہ ہمارا اگلا قدم انہی ہدایات کے تحت اٹھے۔ ابھی اہل قافلہ سے یہی بات چیت کر رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام ہدایات خداوندی کو بصورت آیت ذیل لاکر حاضر خدمت ہوگئے۔ قال تعالی: ’’لقد صدق اﷲ رسولہ الرؤیا بالحق لتدخلن المسجد الحرام انشاء اﷲ اٰمنین محلّقین رؤسکم ومقصّرین لا تخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذلک فتحاً قریباً (اعجاز احمدی ص۶، خزائن ج۱۹ ص۱۱۲)‘‘ {بلاشبہ خداوند تعالیٰ نے اپنے رسول کے سچے خواب کی تصدیق کر دی ہے کہ تم لوگ انشاء اﷲ بالضرور مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوکر کے اپنے سرمنڈواؤ گے اور بال کٹواؤ گے اور بے خوف رہو گے۔ تم جس بات کو نہیں جانتے۔ خداتعالیٰ کو اس کا پورا علم ہے۔ خداتعالیٰ نے تمہارے لئے اسی طواف کی بجائے قریب کی فتح مقرر کر دی ہے۔} مطلب یہ تھا کہ تم گھبراؤ نہیں۔ ہمارے رسول کاخواب سچا ہے ہو کر رہے گا اور تمہارے طواف کا ارادہ ضرور پورا ہوگا۔ لیکن تمہارے خداتعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ تم کعبۃاﷲ کے اندر محکوم اور پابند شرائط ہوکر نہ جاؤ۔ کیونکہ اس طرح کے داخلہ حرم سے تمہاری ذلت وخفت ہوگی اور خدا تم کو عزت وعظمت کے ساتھ اور فاتحانہ شان کی معیت میں اپنے گھر کے اندر لے جانا چاہتا ہے۔ اس لئے اس رکاوٹ کو بار خاطر نہ بناؤ اور تم بخوشی واپس لوٹ جاؤ۔ کیونکہ آئندہ سال تم کو فاتحانہ شان کے ساتھ داخلہ حرم میسر آئے گا اور تمہاری محکومی وغلامی کی تمام زنجیریں ہمیشہ کے لئے کٹ جائیں گی اور تم اس ملک کے حاکم اعلیٰ بن جاؤ گے۔ چنانچہ تمام صحابہ کرامؓ یہی آیت سن کر مطمئن ہوگئے اور واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر آئندہ سال حسب وعدہ خداوندی دس ہزار صحابہ کرامؓ کی جمعیت سے مکہ مکرمہ آن واحد میں فتح ہوگیا اوران کو فاتحانہ شان عظمت کے ساتھ داخلہ حرم میسر آگیا اور باشندگان مکہ کی اکثریت حلقہ بگوش اسلام ہوگئی اور معدودے چند اشخاص نے یہاں سے بھاگ کر دیگر علاقوں میں پناہ لی۔ بنابرآں مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ بعض صحابہ کرامؓ مرتد ہوگئے اور حضرت عمرؓ چند ایام کے اندر ابتلاء اور ایمانی کمزوری کا شکار رہے۔ بالکل افتراء اور