احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ابتدائی فارسی کتب سید عبدالواحد بلگرامی سے پڑھیں۔ درسیات کی تکمیل مولانا لطف اﷲ علی گڑھی (م:۱۳۳۴ھ) جو استاذ الاساتذہ ہند تھے اور مولانا عنایت احمد کاکوروی مصنف علم الصیغہ (م:۱۲۷۹ھ) سے کی۔ دورہ حدیث شریف مولانا احمد علی سہارنپوریؒ (م:۱۲۹۷ھ) سے کیا۔ مختلف حضرات کے زیر صحبت رہے۔ بیعت حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادیؒ سے کی۔ ایک بار گھوڑے پر حضرت شاہ فضل الرحمنؒ کو ملنے گئے۔ واپسی پر آپ نے گھر پیغام بھیجا کہ کچھ کچا یا پکا جو ہے بھجوا دو۔ چند سیر چنے کچے آئے۔ حضرت شاہ فضل الرحمنؒ نے حضرت مونگیریؒ کے رومال میں تین لپیں چنوں کی بھر کر ڈالیں اور فرمایا کہ یہ دنیا ہم نے آپ کو دی اور پھر پان منگوایا۔ پہلے خود حضرت گنج مرادآبادیؒ نے چبایا پھر حضرت مونگیریؒ کو دیا اور پھر فرمایا کہ یہ پان عرفان تھا جو آپ کو دیا۔ حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادیؒ سے بیعت کے بعد دورہ حدیث شریف مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ سے کیا۔ پھر شاہ فضل الرحمنؒ نے بھی حدیث کی اجازت دی اور سلسلہ نقشبندیہ قادریہ میں خلافت سے بھی سرفراز فرمایا۔ حضرت مونگیریؒ نے عرصہ تک پڑھایا۔ طالب علموں کا خوب رجوع ہوا۔ آپ ندوۃ العلماء کے بانی تھے۔ آپ نے بڑا کتب خانہ تیار کیا۔ جواب دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ میں آپ کا صدقہ جاریہ ہے۔ ندوۃ العلماء کاقیام ۱۸۹۲ء کے جلسہ مدرسہ فیض عام کانپور میں ہوا۔ مولانا مونگیریؒ اس ندوۃ العلماء کے ناظم اعلیٰ قرار پائے۔ مرزاقادیانی نے ۱۹۰۲ء میں رسالہ تحفۃ الندوہ لکھا۔ حضرت مونگیریؒ نے توجہ نہ دی۔ مونگیر وبھاگل پور کے اضلاع میں قادیانیوں نے سرگرمیاں دکھائیں اور پھر بہار میں بھی قادیانی یورش بڑھی۔ اب ندوۃ العلماء سے فراغت حاصل کر کے حضرت مونگیریؒ مونگیر تشریف لائے۔ ۱۹۱۱ء میں یہاں قادیانیوں سے مناظرہ ہوا۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ،مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوریؒ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ،مولانا عبدالوہاب بہاریؒ، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ ایسے چالیس علماء کی جماعت مونگیر آئی۔ خانقاہ مونگیر میں علماء کی یہ برأت، عجیب رنگ قائم۔ قادیانیوں کی طرف سے نورالدین، سرور شاہ، روشن علی شاہ ملاعنہ ثلاثہ آئے۔ اہل اسلام کی جانب سے مولانا مرتضیٰ حسن مناظر قرار پائے۔ مناظرہ شروع ہوا۔ حضرت مونگیریؒ نے سر سجدہ میں رکھ دیا۔ مولانا مرتضیٰ حسن کی پہلی تقریر کے بعد قادیانی کرسیاں سروں پر اٹھائے لوٹ گئے۔ اہل اسلام کو جب فتح ہوئی۔ تب حضرت مونگیریؒ نے سجدہ سر اٹھایا۔ اب حضرت مونگیریؒ نے دن رات قادیانیت کے خلاف کام کو تیز کر دیا۔ قادیانیت کے خلاف کام کرنے کو آپ جہاد بالسیف کے برابر قرار دیتے تھے۔ تہجد