ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
صحابہ کی مگر درجات کی یہ حالت ہے کہ نہ اویس قرنی ان کے برابر نہ عمر بن عبدالعزیز نہ بایزید نہ جنید ۔ اور اگر آدمی پڑھا ہوا ہو مگر اس دولت سے محروم ہو یعنی کسی اہل اللہ کی جوتیاں سیدھی نہ کی ہوں تو ایسا شخص عظیم خسارہ میں ہے ۔ یہی صاحب جن کے ہاتھ کے لکھے ہوئے خط پر یہ گفتگو چلی تھی یہاں پر آئے بھی ہیں پرانے آدمی ہیں مگر افسوس ہے کہ میرے مزاج کو نہیں پہچانا ۔ اس خط میں کسی فیصلہ کی درخواست تھی ۔ اس پر فرمایا کہ میں کسی کے فیصلے وغیرہ میں پڑا نہیں کرتا اور ایک طرف بات سنکر تو کیا فیصلہ دیتا جیسا اس میں خواہش کی گئی ہے اگر دونوں فریق بھی جمع ہو کر آتے میں تب بھی فیصلے سے انکار کر دیتا ابھی تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ ایک ایسی بستی میں چند لوگوں کے درمیان آپس میں کسی معاملہ کی بناء پر اختلاف ہو گیا اور پھر اس سے نزاع تک کا درجہ پیدا ہو گیا ان لوگوں نے مجھ سے فیصلہ کرانے کےلئے بے حد کوشش کی ۔ میں نے صاف انکار کر دیا حتی کہ اس معاملہ کی مثال عدالت سے بھی میرے پاس آئی ۔ میں نے اس کو بھی واپس کر دیا ۔ بات یہ ہے کہ میرا تعلق لوگوں سے تعلیم و تربیت کا ہے میں اگر ایسے قصوں میں پڑوں گا تو میرے متعلق فریق بندی کا شبہ پیدا ہو جائے گا اور اس سے لوگوں کو دین کا نقصان پہنچے گا پھر بوجہ عدم اعتماد کے کوئی خدمت دین کی نہ لے سکیں گے اور اب تو میرے نزدیک سب برابر ہیں اور لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں ۔ دوسرے اگر فیصلہ بھی کر دوں ظاہر ہے کہ وہ ایک فریق کے موافق ہو گا اور دوسرے کے مخالف سو جس کے مخالف ہو اگر وہ تسلیم نہ کرے تو میرے پاس اس کے نفاذ کا کیا ذریعہ ہے ۔ میری کوئی حکومت تو ہے نہیں ۔ محنت بھی کی وقت اور دماغ بھی صرف کیا اور نتیجہ کچھ نہ ہوا اس سے کیا فائدہ ۔ یہ کام حکومت کے ہیں کہ اگر فیصلہ کو تسلیم نہ کرے حاکم کے پاس پولیس ہے فوج ہے جیل خانہ ہے ڈنڈے کے زور سے نفاذ ہو سکتا ہے ۔ ہم غریب ملانوں کی کون سنے گا اور اگر کسی مقام پر عدالت سے مدد بھی مل سکی تب تو دوسرے کے محتاج ہم کیوں بنیں اور اب تو وہ زمانہ ہے کہ حکومت ہی کو طرح طرح کی دشواریاں پیش آ رہی ہیں سو واقعہ تو یہ ہے مگر یہ لوگ بلا وجہ مجھ پر بد گمانی کر بیٹھے کہ دوسرے فریق کے حق پر نہ سمجھنے لگے اس لئے اپنے کو حق پر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ میں خود ہی ایسی باتوں سے بچتا ہوں ۔