ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ فلاں مدرسہ میں فساد کی رفتار تیزی پر ہے اور اصلاح کی رفتار سست ہے تو پھر فساد ہی غالب رہے گا اور فساد ہی کو قوت ہو گی ۔ ہاں اگر اصلاح کے مقابل فساد نہ ہوتا اور پھر بتدریج اصلاح کی رفتار چلتی جیسا کہ آپ کا خیال ہے تو مجموعہ ہو کر اصلاح کو قوت ہو جاتی ۔ عرض کیا کہ حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اس مدرسہ میں رہ کر غیبت سے بچنا مشکل ہے فرمایا کہ پہلے تو غیبت ہی سے بچنا مشکل تھا جو ایک معصیت ہے اور اب تو نیچریت سے بچنا مشکل ہے جو کفر کی سرحد سے ملی ہوئی ہے ۔ یہ حالت ہو گئی ہے کہ قرآن و حدیث میں جو نیچری تحریف کرتے تھے وہ اب وہاں کے لکھے پڑھے طلبہ کرتے ہیں بے حد شرم آتی ہے ۔ جب لوگ کہتے ہیں کہ ند وہ اور علیگڑھ میں اور فلاں مدرسہ میں کیا فرق ہے ۔ سو یہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے آپ غیبت ہی کو لئے پھرتے ہیں خیر صاحب جو ان کا جی چاہے کریں ان پر تو اختیار نہیں ۔ مگر اپنے کو تو اختیار ہے کہ ان سے علیحدہ ہو جاویں ۔ سیاق قرآنی سے مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی رائے تھی کہ بیرا ہوں میں رہ کر اصلاح کرنا چاہیے اور موسی علیہ السلام کی رائے تھی کہ ان کو چھوڑ دینا چاہیے ۔ دونوں حضرات کے اقوال جو سورہ طہ میں منقول ہی ان سے یہی مفہوم ہوتا ہے اور رائے موسوی کو ترجیح بھی معلوم ہوتی ہے ۔ جس وقت سے مدرسہ میں یہ گڑ بڑ ہوئی ہے اپنے قلب کو دیکھتا ہوں کہ ان میں انشراح نہیں اور اگر انشراح بھی نہ ہو آدمی نفس پر جبر ہی کر لے مگر کوئی کام بھی تو ہو جب یہ بھی نہ ہو تو پھر کیا نتیجہ واقعی بات تو یہ ہے کہ عذر تو بہت ہیں ۔ مگر جب انشراح نہیں رہتا کام نہیں ہوتا ایسے کام پر موقوف ہوتے ہیں ۔ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا تھا کہ اصلاح کی کوئی صورت بھی ہے ۔ میں نے کہا کہ ہے وہ یہ کہ سال بھر کےلئے مجھ کو پورے اختیار رات دے دیئے جاویں اور جس قدر منتظمین مدرسین طلبہ ہیں سب استعفے داخل کر دیں پھر جس کو چاہوں رکھوں اور جس کو نہ چاہوں نہ رکھوں یہ صورت اصلاح کی ہے اور اس کے خلاف یہ عادۃ اصلاح نا ممکن ہے اس لئے کہ جو پرانے ہیں وہ فن پالیسی اور چالاکی میں مہارت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں جب تک ان کا اخراج مدرسہ سے نہ ہو گا معاملات کا روبہ اصلاح ہونا امر محال ہے ۔ پارٹی بندیاں ہو رہی ہیں ادھر سے ادھر بے تار کی خبریں چلتی ہیں اس سے توڑ اس سے جوڑ شب و روز یہی مشغلہ ہے پھر اصلاح کہاں ۔