ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
صاحبزادوں نے امیر صاحب سے عرض کیا کہ اگر ہم مقتول کے ورثاء کو کچھ دے کر راضی کر لیں اور وہ اپنا حق معاف کر دیں تو اس میں تو کوئی حرج نہیں ۔ فرمایا کوئی حرج نہیں ۔ شریعت میں اس کو دیت کہتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ طیب خاطر سے اس پر رضا مند ہوں ۔ کوئی حکومت کا اثر یا دباؤ ان پر نہ ڈالا جائے ۔ غرض کہ کوشش کر کے ان کو راضی کیا انہوں نے بخوشی معاف کر دیا ۔ تب بیگم صاحبہ کی جان بچی یہ ہے عدل ایسے شخص کو حکومت کرنا جائز ہے ۔ اور اگر بادشاہ ہو کر اس میں عدل نہ ہو بلکہ ظلم ہو بے حد قبیح ہے ۔ دوسرا واقعہ امیر عبدالرحمن خان کی فراست کا بیان کیا ۔ وہی محمد خان راوی ہیں ( وہ چند روز امیر صاحب کے مہمان بھی رہے ہیں کہتے تھے کہ میں نے ایک شب میں خلوت میں فلاح ملک کے متعلق کچھ اصلاحی یاد داشت بطور نوٹ کے لکھیں تھیں اس خیال سے کہ صبح دربار میں امیر صاحب کو مشورہ دوں گا کہ ان چیزوں کی ملک میں ضرورت ہے ۔ وہ یاد داشت جیب میں رکھ کر امیر صاحب کے دربار میں گیا ۔ موقع کا منتظر رہا کہ موقع ملے تو وہ اصلاحی نوٹ پیش کر دوں کہ دفعتہ خود بولے کہ بعض احباب ملک کی اصلاحات کے متعلق یہ مشورہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں چیزیں ملک کی ترقی کےلئے مفید ہیں ۔ اور اس کے بعد نمبروار ہر نوٹ کے جوابات دینے شروع کئے ۔ کہ اس میں اگر یہ مفاد ہے تو یہ مضرت ہے ۔ من جملہ اور نوٹوں کے ایک نوٹ یہ بھی تھا کہ ملک سے ہوشیار اور سمجھدار نو عمر لوگ منتخب کر کے جرمن وغیرہ بھیجے جائیں تاکہ صنعت و حرفت سیکھ کر آئیں اور پھر دوسرے لوگوں کو ملک میں آ گر سکھائیں اس پر فرمایا کہ مشورہ تو بالکل ٹھیک ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے کہ ایسا ہو مگر طریقہ کار غلط ہے اس لئے کہ جو لوگ یہاں سے بھیجے جائیں گے وہ وہاں جا کر آزاد ہو جائیں گے دوسری جگہ کے جذبات اور خیالات کا ان پر اثر ہو گا ۔ پھر جب ملک میں آئیں گے تو ان کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ اوروں کے اندر بھی وہی جذبات اور خیالات پیدا ہو جائیں گے اس لئے اس کی دوسری مفید صورت یہ ہے کہ اہل کمال لوگوں کو صنعت و حرفت میں ماہرین کو باہر سے بلایا جائے اور ان کے ذریعہ سے یہاں کے لوگوں کو سکھلایا جائے تو چونکہ وہ محکوم ہونگے اور ہر قسم کی ان کی نگرانی ہو گی اس سے وہ اندیشہ نہ ہو گا ۔ راوی بیان کرتے تھے کہ ان کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ نوٹ لکھ کر لایا ہے اور اس ترتیب سے نوٹ ہیں یہ کہتے تھے کہ میں نے دربار پر برخاست