ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
علیھم ان اقتلوا انفسکم اواخرجوا من دیارکم ما فعلوہ الا قلیلا منھم ولو انھم فعلوا ما یوعظون بہ لکان خیرالھم الا یہ یعنی اگر خود کشی کا یا گھر سے نکلنے کا اللہ اور رسول کا حکم ہوتا تو ایسا ہی کرنا ضروری تھا ۔ غرض نعمت کے ساتھ اگر منعم سے زیادہ تعلق حبی نہ ہو تو مضائقہ نہیں ۔ چنانچہ اوپر کی آیت میں نعمتوں کے ساتھ ترضونھا بھی فرما دیا یعنی ان کو دیکھ کر خوش ہونا اس کی اجازت ہے مگر خوش ہونے کے بھی حدود ہیں ایک ان کی ذات پر اترانا تو ان کے متعلق فرماتے ہیں لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین دیکھو قارون بالذات مال سے خوش ہوتا تھا کیا درگت بنی ۔ دوسرے خدا کے فضل اور رحمت ہونے کی حیثیت سے اس پر خوش ہونا اس کے متعلق ارشاد ہے قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا ۔ بس ایک فرح بطر ہے ایک فرح شکر ہے تو فرح شکر محمود اور فرح بطر منہی عنہ ۔ پس نعمتوں پر شکر کے طور پر خوش ہونا یہ حق ہے منعم کا اور خود ذات نعمت پر ناز کرنا یہ ناشکری ہے منعم کی اور اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ قلب میں نعمت کے زوال کے احتمال کا استحضار نہیں رہتا اور استحضار زوال کے بعد جو فرح کی کیفیت قلب میں رہ جاوے گی وہ عین شکر ہے ۔ پھر استحضار زوال کے متعلق فرمایا کہ ہماری تو کیا ہستی اور کیا وجود ہے خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب ہے ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک کہ اگر ہم چاہیں تو تمام وحی کے علوم کو محو اور زائل کر دیں اور ظاہر ہے کہ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی کیا کیفیت ہوئی ہو گی اس لئے اس کے ساتھ ہی اس کا ظہور فرمایا کہ درد از یارست و درمان نیز ہم دل فدائے اوشد و جان نیز ہم یعنی آگے فورا سنبھالا الا رحمتہ من ربک یعنی ایک چیز ہے جو آپ کی محافظ ہے اور اس کے محافظ ہونے کے طرق میں ایک طریق یہ بھی ہے کہ وہ رحمت پروردگار کی ہے ۔ حق تعالی اس بقاء علوم کےلئے ایک وظیفہ بتلاتے ہیں کہ آپ یہ دعا کیا کیجئے کہ رب زدنی علما ۔ پھر بطور تفریح کے فرمایا جب حضور ﷺ کو ضرورت اس وظیفہ کی ہے تو آج کل جو علوم حاصلہ کو اپنا کمال سمجھ کر اپنے محسن استاد سے بے فکر ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب تو یہ علم ہمارے پاس رہے ہی گا یہ سمجھنا کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے ۔ کانپور جامع العلوم میں ایک شاگرد