ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
ان مخاطبات کے ہیں ان میں بھی تو ویسا جوڑ نہیں ہوتا تو پھر باپ کی نصیحت میں متعارف ربط کیسے ہو ۔ جب حالات میں خاص ارتباط نہ ہو تو نصائح میں کیسے ہو گا ۔ بلکہ ارتباط کا نہ ہونا ہی خوبی ہے اور دلیل شفقت ہے اس لئے کہ مثلا پانچ نصیحت کیں اور اتفاق سے چار میں تو ربط تھا اور پانچویں میں نہ تھا ۔ تو جو شخص ارتباط متعارف کا اہتمام کرے گا وہ اس وقت پانچویں نصیحت کو ضرور موقوف رکھے گا جو کہ شفقت اور محبت کے منافی ہے اور اس لئے ایسا اہتمام ارتباط کا نقص ہے اور منافی محبت ہے ۔ اگر کوئی باپ سے پوچھے کہ تمہاری اس پانچویں نصیحت میں ربط کیا تھا ۔ وہ کہے گا کہ ربط کیا ہوتا جو ضرورت دیکھی ظاہر کر دیا ۔ غرض قرآن مجید میں تصنیفات کا سا رنگ نہیں اور یہی بڑی شفقت ہے حق تعالی کی ۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف میں مکر رات میں یہ تکرار بھی اسی انتہائی شفقت پر مبنی ہے چنانچہ ارشاد ہے ولقد صرفنا فی ھذا القران لیذکروا ۔ اور کہیں کہیں مکر رات کا جو عنوان مختلف ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کیونکہ مخاطب کے حالات بعض اوقات مختلف بھی ہوتے ہیں ۔ مثلا باپ نے دیکھا بیٹے کو کہ بری صحبت میں بیٹھتا ہے تو ایک وقت کچھ نصیحت کرتا ہے اور کسی طرز سے اور ایک وقت کچھ نصیحت کرتا ہے اور کسی ڈھنگ سے ۔ ایک اور نظیر دیکھ لیجئے کہ منادی کرنے والا جو منادی کرتا ہے سو جو ضرور تین پیش آتی رہتی ہیں اس کو ظاہر کرتا ہے ان میں کوئی خاص جوڑ نہیں ہوتا اور یہ خاص جوڑ نہ ہونا اسکی بھی دلیل ہے کہ اس اعلان میں یہ کسی بڑے آزاد مختار کامل حاکم کا مامور ہے اس حاکم نے اس مناد کرنے والے کو جو اعلان بتا دیا ہے یہ منادی کرنے والا اسی طرح اعلان کر رہا ہے اگر وہ خود اپنی رائے سے کرتا تو وہ اتنا مفید نہ ہوتا کہ اس میں کوئی تصرف نہیں کر سکتا خواہ اس میںربط ہو یا نہ ہو بعینہ اعلان کر رہا ہے ۔ ایک بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ قرآن شریف میں متعارف مناظرہ کا رنگ نہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بڑے حاکم کا کلام ہے کیونکہ حاکم کو ایسے مناظرہ کی ضرورت نہیں دیکھئے شیطان نے شرارت کی دلیل کے ساتھ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین ۔ اس کا جواب حق تعالی حکیمانہ دے سکتے تھے کہ ان مقدمات کا ابطال فرماتے مگر ایسا نہیں کیا کہ اس میں مناظرہ کا رنگ تھا بلکہ حاکمانہ جواب دیا کہ اخرج منھا فانک رجیم خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید جو ہے یہ ایک شفیق اور بڑے حاکم کا کلام ہے