حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اس اسلام کے احکامات میں معمولی تبدیلی ہوتی رہی لیکن اساس وہی ہے جس پر حضرت آدم علیہ السلام چلے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام تک بہت سے وہ احکام جمع ہوگئے، جن کو آخری شکل حضورﷺ کے مبارک دور میں دی جانی تھی۔نماز پہلے سے تھی ،شریعت ِ محمدیہ میں پانچ نمازیں فرض کردی گئیں ۔روزہ محرم کاتھا، رمضان کے فرض کردیے گئے،حج تھا،اس کی ترتیبِ خاص بتادی گئی ،الغرض سب سے قدیم مذھب اسلام ہے۔اورحضورﷺ اس کی چلتی پھرتی تصویرتھے۔ نبی رحمتﷺ اعلان نبوت سے قبل ایام طفولیت وشباب میں اسلام کے اصول حیات پر قائم رہے جبکہ شراب، زنا، ظلم، بغاوت دختر کشی عام تھی، ذی محرم عورتوں سے نکاح کرنے کو معیوب نہ سمجھا جاتا تھا اور بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے حضورﷺ ایسا کرنے سے خود بھی بچتے تھے اور دوسروں کو بھی روکتے تھے۔ یہ دلیل ہے کہ آپﷺ خود اپنے اس فرمان کے سب سے بڑے اورپہلے مصداق تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُّوْلَدُ عَلَی الفِطْرَۃِ اَبَوَاہُ یُھَوِّ دَانِہٖ وَیُنَصِّرَانِہٖ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۱۳۸۵) ترجمہ:ہر بچہ فطرت (اسلام) پہ پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے (غیر اسلامی ماحول دے کر )یہودی اور نصرانی بنا دیتے ہیں ۔ حضور اکرمﷺ میں یہ فطرتی جوہر اعلیٰ درجہ کا تھا کہ مکے کا مشرکانہ ماحول اسے متاثر نہ کرسکا، اس لیے کہ آپﷺ نے تو اپنے فطرتی مذہب( اسلام سے ایک دنیا کو منور کرنا تھا اس لیے آپﷺ کو کسی بھی ماحول سے متاثر ہونے سے محفوظ رکھاگیا۔ آپﷺ کی اسلامیت سب سے مضبوط ہے۔ اس کتاب میں حضورﷺ کی جس سیرت کا تذکرہ ہے وہ در اصل دینِ اسلام یعنی ملت ابراہیمی کی اساسی نیکیاں ہیں ،جوفطرت نبوی میں رکھی گئیں ان کے لیے یہ ضروری نہ تھا کہ آپﷺ کسی سے سیکھیں اورعمل کریں ، ان دنوں میں حضرت ورقہ بن نوفل، حضرت بحیراء راھب، حضرت نسطورا جیسے کئی بزرگ تھے جن سے دین ابراہیمی کی تعلیمات مل سکتی تھیں اور وہ لوگوں کو ادیانِ سماویہ کی تعلیمات سے نوازتے رہتے تھے۔ آپﷺ نے ان سے دین اسلام کے اسباق حاصل نہیں کیے، اس کے باوجود برائیوں سے بچنا اور نیکی کے سب کاموں کو انجام دینا آپﷺ کی فطرتِ سلیمہ کا پتہ دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان فطری اعمال کے خوگر انسانوں کا نام ’’مسلمان ‘‘رکھا۔(سورۃ الحج :۷۸) رسولِ مکرم علیہ السلام پیدائشی مسلمان تھے، اسلام کی سب سے بڑی اساس ’’اطاعتِ حق‘‘ آپﷺ کی طبیعت کا جزو لازم تھی، اس لیے وہ تمام اچھائیاں آپﷺ کے جسدِ اطہر سے صادر ہوتی تھیں ،جن سے اللہ راضی ہوتا ہے اور ہرا س