حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِن فَانَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ۔ مؤمن کی فراست سے ڈرتے رہو کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ ایمان دار میں بقدر ایمان بصیرت و فراست اور نور حق کا وجود لازمی طور پر ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس حقیقت کا ثمرہ بصیرت ہو وہ بے بصیرت حقیقت نہیں ہو سکتی؛ کہ بے بصیرتی سے بصیرت پیدا نہیں ہوسکتی، جس کا حاصل وہی ایمان تحقیقی ہے نہ کہ سنا سنایا ایمان، اسی لئے اس دین میں عقل و بصیر کی عظمت و فضیلت بیان فرما کر گویا اس کی دعوت دی گئی ہے اور اسی لئے قرآن حکیم نے جگہ جگہ آیاتِ الٰہی میں غور و فکر اور تدبر و تذکر اور حجت طلبی کی طرف بلایا ہے جو دوسرے عنوان سے اسی بصیرت و یقین کے پیدا کئے جانے کا امر ہے، اسی ایمانی حقیقت کو جو عقل و بصیرت اور تحقیقی حجت لئے ہو، آیات و روایات میں کہیں حلاوت ایمان سے، کہیں بشاشت ایما ن سے، کہیں طعم ایمان سے، کہیں تفقہ فی الدین سے اور کہیں فہم سلیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں خاص طور پر یہ بات قابل لحاظ ہے کہ آپؒ کا لب و لہجہ جرح و تنقید کے موقع پر بھی نہایت نرم اور فریق مخالف کے احترام پر مبنی ہوتا ہے، مثلاً آپؒ کی کتاب ’اسلام کا اخلاقی نظام‘ ایک عیسائی پادری کے اعتراضات کے رد میں ہے،انہوں نے اسلام پر چار اعتراضات کئے ہیں اور اس ضمن میں خاص کر پیغمبر اسلام B کے سلسلہ میں نہایت ہی دل آزار لب و لہجہ اختیار کیا ہے، حضرت حکیم الاسلامؒ نے ان اعتراضات کا تفصیلی و تحقیقی جوابات دئیے ہیں ۔ لیکن اپنے اسلوب اور طرز تخاطب میں ہمیشہ اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ مخالف کی گفتگو کا مواد کچھ بھی ہو لیکن ہم رحمۃ للعالمین B کی امت ہیں ؛ اس لئے ہم فریق مخالف کے معیار پر اتر کر گفتگو نہیں کر سکتے چنانچہ آپؒ اپنے جوابی مکتوب کے شروع میں تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’گرامی نامہ سے آپؒ کے ذوق تحقیق کے ساتھ انکساریٔ طبع کی روش سے خوشی ہوئی، اختلاف دین کے باوجود اگر طبائع میں یہ جوہر ہو تو غیر مذہب کے انسانوں میں خیرخواہی اورموعظت و نصیحت کا جذبہ قائم رہ سکتا ہے، جو نیک راہ سامنے آجانے اور حق بینی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، البتہ آپؒ کی تحریر میں الزام و اعتراض کے موقعوں پر جگہ جگہ متانت و سنجیدگی کا رشتہ ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ گیا ہے، حتی کہ بعض جگہ استہزاء و تمسخر اور تحقیر و توہین کا رنگ بھی آگیا ہے، اگر جواب میں بھی رد و الزام کے موقعوں پر کہیں ایسا رنگ نظر آئے تو اسے اپنی ہی تحریر کا آوردہ اور رد عمل سمجھا جائے پھر بھی انشاء اللہ مقتدائوں کی توہین یا استہزاء کا کوئی ایک کلمہ بھی