حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
آہ! حکیم الاسلام ؒ باتیں ان کی یاد رہیں گی! مولانا بدر الحسن صاحب قاسمی سابق ایڈیٹر الداعی دارالعلوم دیوبند عصرِحاضر کے نامور عالم دین اور مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کے انتقال سے برصغیر کی دینی و علمی تاریخ کا ایک اہم باب ختم ہوگیا ہے وہ اس عہد کی یادگار تھے جس کی خصوصیت علم و فن کی جامعیت تقویٰ و دیانت اور اخلاق و شرافت رہی ہے۔ ۸۸؍سال کی زندگی (۱۲۱۵ھ تا ۷؍شوال ۱۴۰۳ھ) میں انھوں نے بڑے نشیب و فراز دیکھے چنانچہ وہ خود ہی ایک چلتی پھرتی تاریخ بن گئے تھے۔ انھوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ ۱۳۴۳ھ تا ۱۴۰۳ھ تک دنیا کے ایک ایسے دینی مرکز کی سربراہی کی جس کا برصغیر کی دینی و سیاسی تاریخ پر بڑا گہرا اثر رہا ہے۔ اور جس سے برصغیر میں برپا ہونے والی تمام دینی علمی، اور سیاسی تحریکات کسی نہ کسی حیثیت سے ضرور متاثر ہوئی ہیں اور لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں آج بھی اس سے ایک والہانہ لگائو پایا جاتا ہے یہ مرکز جنگ آزادی کا مرکز بھی رہا ہے اور اس نے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کو مذہبی قیادت دی ہے۔ چنانچہ موجودہ عہد کا کوئی انصاف پسند مؤرخ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اور اس کے عوامی اثر کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ذاتی طور پر حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ کی حیثیت ایک عظیم دینی عالم خوش بیان مقرر اور اچھے مذہبی مفکر اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف کی تھی، ان کا نسبی تعلق حجۃالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی ٔ دارالعلوم دیوبند متوفی ۱۲۹۷ھ سے تھا، جنھوں نے انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کے انقلاب میں