حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلامؒ کے علم و فضل کو خراجِ عقیدت مولانا عبد القدوس حماد قاسمی حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ ظاہری طور پر عالم اسباب سے ۶؍شوال ۱۴۰۲ھ کو عالم برزخ کی جانب منتقل ہوگئے، لیکن آپ کی حیات طیبہ کا اثاثہ اور باقیات صالحات کا جو سرمایہ ہے وہ انشاء اللہ بطور صدقہ جاریہ قائم و دائم رہ کر آپ کی روح گرامی کو نفع دیتا رہے گا۔ آپ کے دینی لٹریچر مختلف اسلامی ادارے اور علمی سلسلے سے امت مسلمہ مستفیض ہوتی رہے گی۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و استاذ اور اس کی دینی تحریک و دعوت کے سربراہ کے منصب پر سرفراز ہوکر آپ نے اسلامی تاریخ و ثقافت کے اقدار وقیم کی مبسوط اور حکیمانہ ترجمانی کی اور اسلام کے بین الاقوامی نظام اور آفاقی طرز حیات کی تفہیم و تشریح کے فرائض کو سرانجام دیا۔نسبی خصوصیت شرافت و نجابت کا اصل معیار تو علم و تقویٰ ہے جس کے اندر علم و دین کا جس قدر کامل رسوخ ہوگا اسی قدر خشیت الٰہی کا رنگ غالب ہوگا۔ یہ صفت و خصوصیت حضرت مرحوم کے اندر بدرجہ کمال موجود تھی، ارشاد قرآنی ہے۔ قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون۔ یعنی اے نبیؐ آپ اعلان کر دیجئے کہ کیا عالم اور غیر عالم برابر ہیں ۔ آیت مذکورہ میں علم سے مراد علم دین ہے کیوں کہ اس کی تفسیر دوسری آیت یوں کر رہی ہے یعلمون ظاہر امن الحیٰوۃ الدنیا وہم عن الاخرۃ غافلون۔ یعنی دنیا کا ظاہر تو جانتے ہیں مگر زندگی کے مغز و روح سے بے خبر ہیں ۔ تو دنیا کے علم کو علم نہیں کہا جا سکتا پھر ظاہری علم کے باوجود خدا نے لایعلمون کہہ کر بتلا دیا کہ اللہ کی نظر میں علم کا مفہوم متعین ہے کہ دین ہی کی حقیقت کا علم اللہ کی نظر میں علم ہے