حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلام ؒ کا نقش جمیل مولانا حکیم عبد الرشید محمود گنگوہی ؒ آہ! مولانا محمد طیبؒ رہ گزر آخرت ہوگئے۔ ہونا ہی تھا نہ کوئی نئی بات ہے نہ غیر متوقع حادثہ، مگر دلوں کی دنیا اور یادوں کی بستی سے ان کا نقش ِ جمیل مٹ جانا ممکن نہیں ، وہ باقیات صالحات سے بھی تھے اور ’’ومجلہا کلمۃ باقیۃً فی عقبہٖ‘‘ ان کی زندگی اور زبان یہی تھی۔ ان کی شیریں زبانی، شگفتہ بیانی، صورت نورانی، ہوش مندی وفکرارجمندی ذہن اور درد مندی دل کو کون بھلا سکتاہے، دوائر علمیہ میں ان کی جامعیت۔ علوم وافکار کا تنوع، تبحر،ادبی ذوق خوبیٔ تعبیر،حسین وبدیع ترجمانی، مجامع میں خطاب گویا فلک اعلیٰ سے ’’اذا تکلم یخیل الینا انہ یوید‘‘ کا ساکیف ، حکمت ربانیہ ولی اللہی بھی ابن جوزی کی سی سحر انگیزی بھی کس صاحب ذوق جوہر شناس کو رہ رہ کریاد نہ آئے گی۔ ’’عجزت النساء ان یلدن مثل طیب‘‘ اب وہ کوہ کن کی بات کوہ کن کے ساتھ کس کس نادرہ اور خلیقہ پر تعجب کریں ۔ زبان ایسی کہ سب سمجھیں ، بیان ایسا کہ دل مانے، عقل کی پاسبانی بھی۔ ’’لیکن کہیں کہیں اسے تنہا بھی چھوڑدے‘‘ کے سے افکار بھی دلائل عقلی بھی، نقلی بھی جدل ِ عدل بھی انفسی، آفاقی بھی اور حقائق ومعرفت آگیں بھی۔ میں نے مجلس سے اٹھتے ہوئے اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا۔ عالم کیا ہے ایک دریا ہے عجیب نابغیت۔ آہ!آخر وہ وقت آگیا ع عشیۃ قیل طیب لیس فینا انہی کا یہ شعر ہے؎ خوگر عیش وطرب اب آہ اپنا دل نہیں اے تماشا گاہِ عالم بس تجھے آداب ہے