حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
موت العالمِ موت العالَم مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ سابق رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند وادریغا! دو دمان قاسمی کا لعل شب چراغ گم ہوگیا۔ چمن زار دارالعلوم دیوبند کا گل سرسبد مرگ کی بادِ صرصر سے نذرخزاں ہوگیا، بزم علم و عرفان کی شمع فروزاں بجھ گئی، حسن بیان و خطابت کے ایوان مین زلزلہ آگیا، مسند وعظ و مصطبۂ ارشاد و ہدایت بے رونق ہوگئے، یعنی ۱۷؍جولائی کو حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب کم و بیش ۸۸؍برس کی عمر میں عالم آب و گل کو خیرآباد کہہ کر عالم آخرت کی طرف منتقل ہوگئے۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون۔ شب میں عشاء کی نماز کے بعد ہزاروں ماتم گساروں کے مجمع میں نمازِ جنازہ دارالعلوم کے احاطہ مولسری میں ادا کی گئی۔ اور پھر تدفین جد امجد نور اللہ مرقدہٗ کے پہلو میں ہوئی، اس طرح گویا ع پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا کل من علیہا فان۔ ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ حضرت مرحوم جب پیدا ہوئے یہ دارالعلوم دیوبند کے اوجِ شباب کا زمانہ تھا، اساتذہ کرام اپنے اپنے فن میں یگانہ ٔ روزگار تھے، جن کے علم و فضل اور مہارت فن کا آوازہ ممالک غیر میں بھی دور دور تک پہونچا ہوا تھا۔ پھر اس دور کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اصحاب درس تدریس خود بھی روحانی اور باطنی کمالات کے حامل اور جامع ہوتے تھے، اور ان کے علاوہ تھانہ بھون سہارنپور اور دیوبند میں مستقل طور پر طریقت و معرفت کی درسگاہیں قائم تھیں اور دارالعلوم جس کا نام تھا وہ درحقیقت انھیں دونوں قسم کے علوم و فنون کی تعلیم و تربیت گاہ تھی، غرض کہ ایک طرف یہ سرچشمہائے فیض تھے جو پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں تھے اور دوسری جانب حضرت مرحوم خانوادۂ قاسمی کے چشم و چراغ ہونے کے باعث ہر ایک