حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مستند بن چکا تھا، ملک کی آزادی کے بعد مسلمانوں کی پسماندگی، مایوسی اور پریشانی کے حالات میں دین و شریعت کیلئے ایک منارۂ نور تھا، جہاں اس ادارے نے قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی تدریس و اشاعت کی عظیم الشان خدمات انجام دیں وہیں مسلمانوں کے دین و شریعت اور عائلی قوانین میں ان کی رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کیا۔ دین، اسلامی احکام اور شریعت کے دفاع میں بھی دارالعلوم اور اس کے فرزندوں نے قابل قدر کارنامے انجام دئیے، اس حوالے سے ہندوستان کے مسلمانوں کی نگاہیں بھی دارالعلوم دیوبند کی جانب اٹھتی رہی ہیں ۔مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام دارالعلوم دیوبند میں اکابر امت کی نشست کے بعد حضرت مولانامحمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مؤرخہ ۲۷؍۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۲ء میں بمبئی میں وہ عظیم الشان تاریخ ساز ’’مسلم پرسنل لا کنونشن‘‘ منعقد ہوا، جہاں مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی داغ بیل پڑی، یہ اجلاس ہندوستان کی تاریخ میں لاثانی اور بے مثال تھا، اسمیں شرکت کرنیوالوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی ، اور اسمیں جلوہ افروز ہونے والی مسلم تنظیموں ، فرقوں ، مختلف مسالک کے اعلیٰ ترین علماء و مشائخ، مسلم قائدین، سیاسی مسلم رہنمائوں اور اہل علم، دانشوروں کی شخصیتوں کے اجتماع کے لحاظ سے بھی، جس میں پہلی بار مسلمانوں کے تمام مسالک اور تنظیموں کے جلیل القدر رہنما موجود تھے، اتحاد امت کا ایسا نظارہ برصغیر ہند نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، مسلمانوں کے اتحاد کا ایسا انوکھا اور نمائندہ اجتماع کہ کسی نے سچ کہا تھا کہ آج ہندوستان کے کسی گوشے میں جاکر دریافت کرو کہ مسلمانوں کے فلاں رہنما، قائدین اور علماء کہاں ہیں توایک ہی جواب ملے گا کہ وہ سب آل انڈیا مسلم پرسنل لا کنونشن میں ہیں ، بمبئی کے نامور افراد نے شرعی قوانین کے عنوان پر اس عظیم کنونشن کیلئے انتھک جدوجہد کی، علماء ، دانشوران اور دیندار مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس کی کامیابی کیلئے سرگرم رہا، خاص طور پر جناب یوسف پٹیل صاحب جو بعد میں بورڈ کے سکریٹری منتخب ہوئے۔ تحفظ شریعت اور مسلمانوں کے ملّی تشخص کی بقاء کا عنوان تھا اور حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب علیہ الرحمہ کی دعوت تھی، بلاتفریق مسلک و مشرب سب ہی جمع ہوئے، حنفی، شافعی بھی تھے، اور اہل حدیث بھی، سنی بھی اور شیعہ بھی، دیوبندی بھی تھے اور بریلوی بھی، دائودی بوہرہ بھی اور سلمانی بوہرہ بھی تھے، اور سبھوں کی ایک ہی آواز تھی، ہم شرعی قوانین پر عمل پیرا رہیں گے، اور اسمیں کسی طرح کی کوئی ترمیم اور مداخلت قبول نہیں ہوگی۔یہ خالق کائنات کے بنائے قوانین ہیں اسمیں ترمیم و تبدیلی کی گنجائش نہیں ، پورے